نئی دہلی: مسلم ممالک کا دباؤرنگ لے آیا اورڈنمارک میں قرآن پاک کی بےحرمتی غیرقانونی قراردے دی گئی ہے۔ باخبرذرائع کا کہنا ہے کہ ڈنمارک کی پارلیمنٹ میں قرآن پاک کی بےحرمتی روکنے کا بل منظورہوگیا، جس کے بعد ڈنمارک میں عوامی مقامات پرقرآن پاک کی بے حرمتی غیرقانونی ہوگئی ہے۔ کئی مسلم ممالک نے ڈنمارک کی جانب سے قرآن پاک کی بے حرمتی کو غیرقانونی قراردینے کے بل کی تجویزکا خیرمقدم کیا تھا۔ قابل ذکرہے کہ ڈنمارک اورسوئیڈن میں پچھلے کچھ مہینوں میں قرآن پاک کی بےحرمتی کے کئی واقعات ررنما ہوئے تھے۔
بہرحال ڈنمارک کی پارلیمان نے جمعرات کو عوامی مقامات پر قرآن مجید کو نذرآتش کرنے کوغیرقانونی قراردینے کا قانون منظورکرلیا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ نئے قانون کی خلاف ورزی پر جرمانہ یا دو سال تک قید کی سزا ہوسکتی ہے۔ اسلام کی مقدس کتاب کی بے حرمتی کے خلاف مسلم ممالک میں مظاہروں کے بعد ڈنمارک کی سلامتی کے حوالے سے تشویش پیدا ہوئی۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ڈنمارک اور سویڈن میں رواں سال عوامی مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا جہاں اسلام مخالفوں نے قرآن مجید کو نذر آتش کیا یا نقصان پہنچایا، جس سے مسلمانوں کے ساتھ کشیدگی بڑھ گئی اور یہ مطالبہ کیا گیا کہ نارڈک حکومتیں اس عمل پر پابندی عائد کریں۔ڈنمارک نے مذہب پر تنقید کرنے کے حق سمیت اظہار رائے کی آزادی جسے آئینی تحفظ حاصل ہے اورقومی سلامتی کے درمیان توازن قائم کرنے کی کوشش کی کیوں کہ خدشہ تھا کہ قرآن نذر آتش کرنے سے اسلام پسندوں کی جانب سے حملے شروع ہوسکتے ہیں۔
سوئیڈن اورڈنمارک کے مقامی ناقدین کا استدلال ہے کہ مذہب پرتنقید پرپابندی بشمول قرآن جلا کرمذہب پرتنقید پرپابندی سے ان لبرل آزادیوں کو نقصان پہنچتا ہے جو سخت جدوجہد کے بعد حاصل کی گئیں۔ پابندی کی مخالفت کرنے والے اورترک وطن کے خلاف مہم کے رہنما انگرسٹوجبرگ کے بقول: ’تاریخ اس کے لیے ہمیں سختی سے جانچے گی اورمعقول وجہ کے ساتھ … یہ سب اس بات پر منحصر ہے کہ آیا اظہار رائے کی آزادی پر پابندی کا تعین ہم کرتے ہیں یا اس کا حکم باہر سے دیا جاتا ہے۔‘
ڈنمارک کی اعتدال پسند مخلوط حکومت نے دلیل دی کہ نئے قوانین کا اظہار رائے کی آزادی پر معمولی اثر پڑے گا اور دوسرے طریقوں سے مذہب پر تنقید کرنا قانونی رہے گی۔ سویڈن بھی قرآن کی بے حرمتی کو قانونی طور پر محدود کرنے کے طریقوں پر غور کر رہا ہے لیکن ڈنمارک کے مقابلے میں اس کا نقطہ نظر مختلف ہے۔ وہ اس بات کا جائزہ لے رہا ہے کہ آیا عوامی مظاہروں کے لیے درخواستوں پر فیصلہ کرتے وقت پولیس کو قومی سلامتی کو مدنظر رکھنا چاہئے۔
-بھارت ایکسپریس