برطانیہ میں نفرت انگیز تقاریر پر پاکستانیوں کے خلاف بڑی کارروائی، حکومت کر رہی ہے24 مساجد کی تحقیقات
Britain Hate Speech: برطانیہ میں نفرت انگیز تقاریر پر پاکستانیوں کے خلاف بڑی کارروائی کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں 24 مساجد کی چھان بین بھی کی جا رہی ہے۔ یہ مساجد لندن، برمنگھم، لیورپول اور مانچسٹر جیسے شہروں میں پاکستانی نژاد لوگ چلا رہے ہیں۔ الزام ہے کہ ان کے ذریعے غیر مسلموں کے خلاف نفرت انگیز تقریریں کی جاتی ہیں، یہاں تک کہ فتوے بھی جاری کیے گئے۔ حماس اور اس کی تنظیموں کی حمایت میں یہاں سے نفرت انگیز تقریریں بھی کی گئیں۔ اب معاملہ زیر تفتیش ہے۔ اگر وہ تفتیش کے دوران قصوروار پائے جاتے ہیں تو انہیں 14 سال تک قید ہو سکتی ہے۔
واضح رہے کہ لیبر پارٹی کی حکومت جولائی میں اقتدار میں آئی تھی۔ حکومت کو شکایت موصول ہوئی کہ غزہ کی جنگ کے حوالے سے مساجد سے اشتعال انگیز تقاریر کی جا رہی ہیں۔ ایسے علماء اور مذہبی مبلغین جو اسرائیل اور یہودیوں کے خلاف تقاریر کرتے تھے انہیں بھی یہاں بلایا جا رہا ہے۔ اب شکایت موصول ہونے کے بعد حکومت نے ایسی 24 سے زائد مساجد کی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔
سامنے آرہا ہے فنڈنگ کا معاملہ
حکومت نے یہ بھی کہا کہ یہاں کی سرگرمیوں اور فنڈنگ کی بھی چھان بین ہونی چاہیے۔ چیریٹی کمیشن کی سربراہ ہیلن اسٹیفنسن کو اس کی تحقیقات کی کمان سونپی گئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ معاملے کی جانچ کی جا رہی ہے۔ قوانین کی خلاف ورزی کرنے والی مساجد کی حیثیت بھی چھین لی جا سکتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ برمنگھم کی ایک مسجد کے مولوی نے نمازیوں کو اکسایا تھا۔ اشتعال انگیز تقریر کرتے ہوئے انہوں نے لوگوں سے کہا کہ اے مسلمانو، میرے پیچھے ایک یہودی ہے، آؤ اور اسے قتل کرو۔ اس مسجد کو گزشتہ 2 سالوں میں حکومت سے 12 لاکھ روپے کا فنڈ ملا تھا۔ اسی دوران مشرقی لندن کی ایک اور مسجد پر حماس کے حملے کو جائز قرار دیا گیا۔ تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ یہ مساجد پاکستانی نژاد لوگ چلاتے ہیں۔ برطانوی قانون کہتا ہے کہ اگر کوئی تحقیقات میں قصوروار پایا جاتا ہے تو اسے 14 سال تک قید ہو سکتی ہے۔
-بھارت ایکسپریس