بنگلہ دیش میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔
پڑوسی ملک بنگلہ دیش میں عوام کی ناراضگی میں تھوڑی کمی آئی ہے، لیکن ابھی تشدد ختم نہیں ہوا ہے۔ اسی درمیان مظاہرین نے ایک اورالٹی میٹم دیا ہے۔ ہفتہ کوسینکڑوں بنگلہ دیشی مظاہرین نے مبینہ طور پر سپریم کورٹ کوگھیرلیا۔ ہجوم نے چیف جسٹس عبیدالحسن اوراپیلیٹ ڈویژن کے ججوں کو مقامی وقت کے مطابق، دوپہرایک بجے تک استعفیٰ دینے کا الٹی میٹم جاری کیا تھا، جس کے بعد انہوں نے استعفیٰ دے دیا۔
مقامی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق، مظاہرین نے دھمکی دی تھی کہ اگرتمام جج متعینہ وقت سے پہلے استعفیٰ نہیں دیتے ہیں تو وہ ان کی رہائش گاہ کا گھیراؤ کریں گے۔ دارالحکومت ڈھاکہ میں مظاہرین کے بعد چیف جسٹس اوراپیلیٹ پینل کے دیگرججوں نے استعفیٰ دینے کا فیصلہ بھی لے لیا ہے۔
وزارت کھیل کے مشیرنے کیا تھا پوسٹ
اس سے پہلے جمعہ کو صبح عبوری حکومت کے نوجوان اموراور وزارت کھیل کے مشیر آصف محمود نے فیس بک پراس سے متعلق ایک پوسٹ شیئرکیا تھا۔ آصف محمود نے اس پوسٹ میں چیف جسٹس کو بلا شرط استعفیٰ اور مکمل عدالتی میٹنگ میں روکنے کا مطالبہ کیا تھا۔ مخالفت کے درمیان، بنگلہ دیش کے چیف جسٹس نے سپریم کورٹ کے ججوں کی میٹنگ بھی ملتوی کردی ہے۔ دراصل، یہ میٹنگ فیصلہ لینے کے لئے بلائی گئی تھی کہ عدالت کا کام کاج ورچوئل طریقے سے چلے گا یا نہیں۔
شیخ حسینہ کے وفادار مانے جاتے تھے عبیدالحسن
چیف جسٹس عبیدالحسن کو گزشتہ سال سپریم کورٹ کا چیف مقرر کیا گیا تھا۔ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہ سابق وزیراعظم شیخ حسینہ کے کافی خاص تھے۔ اس درمیان، لا ایڈوائزرپروفیسر آصف نذرل نے کہا کہ عدالیہ کے وقار کے تحفظ کے لئے چیف جسٹس کواپنا فیصلہ لینا چاہئے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ چیف جسٹس کوطلبا کے مطالبات کا احترام کرنا چاہئے۔ آصف نذرل نے مظاہرین لیڈران کی شکایتوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا، ”میں نے طلبا کی شکایت دیکھی ہیں۔ چیف جسٹس نے جس طرح سے عدالت کی میٹنگ بلائی تھی، اس سے لگتا ہے کہ وہ ہاری ہوئی طاقتوں کی حمایت سے متعلق تھی۔‘‘