تحریر: سنجے موریا
بھارت میں فضائی آلودگی صحت عامہ کو درپیش سب سے بڑے خطرات میں سے ایک ہے۔ ’دی لانسیٹ پلینیٹری ہیلتھ‘ میں شائع ایک مطالعے میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ ۲۰۱۹ میں بھارت میں فضائی آلودگی کی وجہ سے ایک اعشاریہ ۶۷ ملین اموات ہوئیں۔ ان اموات میں سے زیادہ تر محصور ذرّات کی آلودگی اور گھریلو فضائی آلودگی کی وجہ سے ہوئیں۔ ۲۰۲۲ء میں شائع ہونے والے صحت کے عالمی ادارے (ڈبلیو ایچ او) کے اعداد وشمارکے مطابق، محصور فضائی آلودگی اورگھریلو فضائی آلودگی کے مشترکہ اثرات سالانہ ۶ اعشاریہ ۷ ملین اموات کے لئے ذمہ دار تصورکئے جاتے ہیں۔
صحت پر مرتب ہونے والے اثرات
انسانی صحت پر ہوا کے خراب معیارکے اثرات کو کم کر کے اس کا اندازہ نہیں لگا یا جا سکتا۔ آلودہ ہوا میں طویل عرصے تک رہنے سے جسمانی اور ذہنی تندرستی دونوں کو سنگین خطرات لاحق ہوتے ہیں۔ آلودہ ہوا میں موجود ذرّات پھیپھڑوں میں گہرائی تک داخل ہو سکتے ہیں، جس سے سانس سے متعلق مسائل پیدا ہو سکتے ہیں ، پھیپھڑوں کے کام کی صلاحیت کم ہو سکتی ہے اور قوت مدافعت کمزور ہو سکتی ہے۔
ہوا میں موجود سلفرڈائی آکسائیڈ، نائٹروجن آکسائیڈ اوراتارچڑھاؤ والے نامیاتی مرکبات جیسی زہریلی آلودگی قلبی صحت پرمضراثرات مرتب کرتی ہے ۔ مطالعات سے پتہ چلا ہے کہ طویل مدت تک فضائی آلودگی میں رہنے سے دمہ، پھیپھڑوں کے کینسر، امراضِ قلب ، دل کا دورہ اوردیگرامراضِ تنفس کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ بچے، بزرگ اورپہلے سے صحت کے مسائل کا سامنا کرنے والے افراد خاص طورپرصحت پرپڑنے ان اثرات کے تئیں حسّاس ہوتے ہیں۔
کرنے کا کام
فضائی آلودگی سے نمٹنے اورصحت مند ماحول کو فروغ دینے کے لیے لوگ متعدد اقدامات کر سکتے ہیں۔ سب سے پہلے کارپول(ایک جگہ جانے کے لیے الگ الگ کاروں کی بجائے ایک کار کا استعمال)، پبلک ٹرانسپورٹ یا سائیکل جیسے پائیدار نقل و حمل کے متبادل کا انتخاب کریں۔اس سے گاڑیوں سے ہونے والے اخراج میں قابل ذکر کمی آ سکتی ہے۔ گاڑی خریدتے وقت الیکٹرک یا ہائبرڈ ( دوطرح کے ایندھن کا استعمال کرنے والی گاڑی) قسموں کا انتخاب کریں اورکاربن کے اخراج کو کم کرنے کے لیے باقاعدگی سے ان کا رکھ رکھاؤ کریں۔
گھرمیں پائیدارطریقوں کو فروغ دینا ایک اور اہم قدم ہے۔ توانائی کی بچت کرنے والے آلات کا انتخاب کریں، ایل ای ڈی لائٹنگ کا استعمال کریں اور جب بھی ممکن ہو قابل تجدید توانائی کے ذرائع اختیارکریں ۔ ضرورت سے زیادہ حرارت یا ٹھنڈک کو کم کرنے کی خاطرتوانائی بچانے کے لیے گھروں کو اچھی طرح سے محفوظ بنائیں۔ گھروں کے اندر آلودگی کو بھی کم سے کم کیا جانا چاہیے۔ کیڑے مار ادویات اورصفائی کے لیے کیمیاوی رقیق کے استعمال سے پرہیز کریں جو آلودگی پھیلاتے ہیں۔ اندرونی جگہوں کو اچھی طرح سے ہوادار رکھیں اور آلودگی کی بہتر صفائی اورہوا کے معیار میں بہتری کے لیے’ایئر پیوریفائر‘ کے استعمال پرغورکریں۔
فضلہ کا ذمہ دارانہ بندوبست فضائی آلودگی کو کم کرنے کا ایک لازمی پہلو ہے۔ فضلہ کو ذمہ داری سے ٹھکانے لگائیں اور ری سائیکل کرنے کے لائق مواد کو الگ کریں۔فضلہ کو کھلے عام جلانے سے بچنا اورکھاد بنانا غور کرنے کے لائق اضافی اقدامات ہیں۔ سبزاقدامات کی حمایت کریں، سبز جگہوں کی تخلیق اور شہری باغبانی کے اقدامات کی حوصلہ افزائی کریں۔ درخت قدرتی ہوا صاف کرنے والے کے طورپرکام کرتے ہیں اورآلودگی کو جذب کرتے ہیں، جبکہ سبز جگہیں شہری ماحول میں سانس لینے کی جگہ فراہم کرتی ہیں۔ طویل مدتی بہتری کےلیے تبدیلی کی وکالت بہت ضروری ہے۔ صاف ہوا کی اہمیت اورصحت عامّہ پر اس کے اثرات کے بارے میں بیداری پیدا کرکے افراد دوسروں کو کام کرنے کی ترغیب دے سکتے ہیں۔ مقامی برادریوں کے ساتھ مشغول ہونا، شہریوں کی زیر قیادت اقدامات میں حصہ لینا اور ہوا کے معیار میں بہتری کو ترجیح دینے کے لیے پالیسی سازوں پر دباؤ ڈالنا تبدیلی لانے اور سبھی کےلیے صحت مند مستقبل کو یقینی بنانے کے مؤثر طریقے ہیں۔
فطرت سے سیکھنا
’یوبریتھ‘ کی’ بریتھنگ روٹس ٹیکنالوجی‘ پودوں کی ہوا صاف کرنے کے قدرتی طریقے کو استعمال کرتی ہے۔ اس ٹیکنالوجی سے تیار کردہ ہوا صاف کرنے کی مشینیں ایک منفرد ڈیزائن کی حامل ہوتی ہیں جو ’سینٹری فیوگل‘ پنکھے کی مدد سے تقریباً ۵۰۰ گنا پودوں کے ’فائیٹوریمیڈییشن‘ کے عمل کو بڑھاتی ہیں۔ ’فائیٹوریمیڈییشن ‘ایک ایسا عمل ہے جو آلودہ مٹی، پانی اور ہوا کے علاج کےلیے پودوں کا استعمال کرتا ہے۔ پنکھے کی موجودگی سے مٹی کی جڑ کے علاقے میں ہوا کی مقدار بڑھ جاتی ہے جس سے جڑ میں موجود ’مائیکرو بایوم ‘زیادہ ہوا کے ساتھ تعامل کرنے اور اسے صاف کرنے کے اہل ہو جاتے ہیں۔ مارکیٹ میں موجودہ میکا نکل فلٹر تیز اور خام ہوتے ہیں،انہیں خراب ہونے میں زیادہ وقت لگتا ہے اور ان سے کاربن ڈائی آکسائڈ کا اخراج زیادہ ہوتا ہے۔ ’یوبریتھ‘ کی پودوں پر مبنی ہوا کو صاف کرنے کی قدرتی تکنیک ہوا کے معیار کا کُلّی طور پر احاطہ کرتی ہے جس سے ہوا کو صاف کرنے کے عمل میں کاربن ڈائی آکسائڈ کا نام و نشان بھی باقی نہیں رہتا ۔
بشکریہ سہ ماہی اسپین میگزین، شعبہ عوامی سفارت کاری، امریکی سفارت خانہ، نئی دہلی
بھارت ایکسپریس۔