ورلڈ بینک نے کی پاکستان کو قرض دینے میں تاخیر
World Bank: پاکستان کی بگڑتی ہوئی معاشی حالت، سیاسی بے یقینی اور موجودہ حکومت کی آئی ایم ایف پروگرام کو بحال کرنے کے لیے پیشگی شرائط کو پورا کرنے میں ہچکچاہٹ، فیصلے لینے میں تاخیر نے ملک کی پہلے سے خراب مالی حالت اور اس کی عالمی کریڈٹ کی خراب ریٹنگ کو مزید خراب کر دیا ہے۔ ورلڈ بینک نے بھی ملک کو 1.1 بلین ڈالر کے قرض کی منظوری میں تاخیر کی۔
ورلڈ بینک کے قرضوں کی منظوری گزشتہ سال جون سے زیر التوا ہے، جب کہ پاکستان کا آئندہ مالی سال اپریل 2023 میں شروع ہوگا۔
وزارت خزانہ کے ایک ذریعہ نے بتایا کہ اہم مسئلہ بجلی کے شعبے میں گردشی قرضوں کے انتظام کی اسکیم اور ٹیرف پر نظرثانی ہے۔ یہ کام ہمارے حق میں زیر التوا ہیں۔
شہباز شریف کی سربراہی میں حکومت پاکستان اور اسحاق ڈار کی سربراہی میں وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ موجودہ مالی بحران کی ذمہ دار سابق وزیر اعظم عمران خان کی حکومت ہے۔
ڈار نے حال ہی میں نویں جائزے کی منظوری نہ دینے اور پروگرام کی اگلی قسط جاری نہ کرنے پر آئی ایم ایف کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ آئی ایم ایف کی ٹیم جائزے کے لیے پاکستان نہ آنے پر انہیں کوئی پرواہ نہیں، انہوں نے مزید کہا کہ وہ لوگوں پر مزید بوجھ نہیں ڈالیں گے۔ اب لگتا ہے کہ وہ اس حقیقت پر آ گئے ہیں کہ پاکستان کو پروگرام کی بحالی کے لیے آئی ایم ایف کی پیشگی شرائط پر عمل کرنے کے لیے یقینی طور پر کچھ مشکل اور غیر مقبول فیصلے کرنے ہوں گے۔
پاکستان کو آئی ایم ایف کی شرائط ماننے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ورلڈ بینک اور دیگر عالمی ڈونرز سے اس کے دیگر تمام قرضے بھی براہ راست آئی ایم ایف پروگرام سے جڑے ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے حکومت کو مزید ٹیکس لگانے، ٹیرف میں اضافہ کرنا پڑا ہے۔ ایندھن کی قیمتوں اور روپے کی قدر کو مارکیٹ کے ذریعے قائم کرنے دیں۔
لیکن حکومت پاکستان، جو نہ صرف سابق وزیر اعظم کی سیاسی چالبازیوں سے دباؤ میں ہے جس نے پنجاب اور خیبر پختونخوا دونوں صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کر دیا ہے، قبل از وقت عام انتخابات کا مطالبہ کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ ملک میں سیاسی غیر یقینی صورتحال کو مزید بڑھانے کی دھمکی دے رہی ہے۔ گزشتہ سال اپریل کے بعد آئی ایم ایف پروگرام کو بحال کرنے کے اتحادی حکومت کے سخت فیصلے پر بڑے پیمانے پر تنقید ہوئی اور انہیں سیاسی اثرات کا سامنا کرنا پڑا۔
یہی وجہ ہے کہ حکومت اب بھی مزید غیر مقبول فیصلے کرنے سے گریزاں ہے کیونکہ اس سے عوام میں پہلے سے موجود سیاسی گراوٹ اور حمایت مزید خراب ہو جائے گی جس کا براہ راست اثر ان کی پوزیشن، بیانیہ اور آئندہ عام انتخابات کے لیے انتخابی مہم پر پڑے گا۔
-بھارت ایکسپریس