Bharat Express

IMF

پاکستان اور عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے درمیان اگلے قرض پروگرام کے حوالے سے متعدد تجاویز پر اختلاف برقرار ہیں۔ذرائع وزارت خزانہ کے مطابق سابق فاٹا کے علاقوں کے لئے ٹیکس چھوٹ ختم کرنے پر پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان اتفاق نہیں ہو سکا۔

آئی ایم ایف (انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ) کی ایم ڈی کرسٹالینا جارجیوا کے مطابق اے آئی کے منفی اثرات دو سالوں میں ملازمتوں پر نظر آئیں گے۔ ترقی یافتہ ممالک میں 60 فیصد ملازمتیں ختم ہونے کا خدشہ ہے۔ نیز، دنیا میں 40 فیصد ملازمتیں ختم ہوسکتی ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران یومیہ اجرت پر کام کرنے والوں کی اجرتوں میں صرف پانچ فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ افراط زر 30 فیصد سے زیادہ ہے۔

آئی ایم ایف نے یہ بھی اعلان کیا کہ پاکستان نے ایک نیا درمیانی مدتی بیل آؤٹ پیکج لینے میں دلچسپی ظاہر کی ہے اور آنے والے مہینوں میں بات چیت شروع ہو جائے گی۔

ایک پریس کانفرنس کے دوران آئی ایم ایف کی ڈائریکٹر کمیونیکیشنز جولی کوزاک نے کہا کہ 11 جنوری کو قرض دہندہ نے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ (ایس بی اے) کے تحت 1.9 بلین ڈالر کی قسط فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے

آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کیلنڈر کے مطابق اجلاس 8 جنوری اور 10-11 جنوری کو شیڈول ہیں۔ گزشتہ روز پاکستان کے معاملے پر بات ہونی ہے جس میں 3 ارب امریکی ڈالر کے 'اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ' کے تحت 700 ملین امریکی ڈالر کی اگلی قسط کی ممکنہ طور پر حتمی منظوری دینے کی تیاریاں کی گئی ہیں۔

آئی ایم ایف نے آر بی آئی کے فعال مانیٹری پالیسی کے موقف اور قیمتوں کے استحکام کے لیے مضبوط عزم کی بھی تعریف کی ہے۔ ٓئی ایم ایف نے اس بات پر اتفاق کیا کہ موجودہ غیر جانبدار مانیٹری پالیسی کا موقف،جو ڈیٹا پر مبنی نقطہ نظر پر مبنی ہے، مناسب ہے اور اسے آہستہ آہستہ افراط زر کو ہدف پر واپس لایا جانا چاہیے۔

وزارت خزانہ کی طرف سے جاری نوٹیفیکیشن کے مطابق پیٹرول کی نئی قیمت 17روپے 50 پیسے اضافے کے بعد اب333روپے 45 پیسے فی لیٹر ہوگئی ہے جب کہ ڈیزل کی قیمت میں 20 روپے فی لیٹر اضافے کی وجہ سے نئی قیمت 293 روپے 40 پیسے فی لیٹر پہنچ گئی ہے

پاکستان اور انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کے درمیان کئی ماہ کے مذاکرات کے بعد تین ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج کا معاہدہ طے پا گیا ہے۔ جمع کو فریقین کے درمیان عملے کی سطح کے معاہدے پر دستخط کیے گئے ہیں، جس کی اطلاع وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف نے دی ہے۔

صحافی نے وزیر خزانہ سے تعطل کا شکار انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) پروگرام کی پیشرفت کے بارے میں پوچھا اور وزیر اعظم شہباز شریف کی آئی ایم ایف کے سربراہ سے حالیہ ملاقات کا ذکر کیا۔ ان سوالوں کے جواب میں اگرچہ ڈار خاموش رہے تاہم صحافی مسلسل سوالات کرتے رہے۔