افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد سے اب تک کسی بھی ملک نے طالبان کو افغانستان کی حکومت کے طور پر قبول نہیں کیا ہے،چونکہ کئی ممالک نے طالبان کو دہشت گرد جماعت کی فہرست میں رکھا ہوا ہے۔ لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ طالبان کو قبول کرنے کا دور بہت جلد شروع ہونے والا ہے اور اس میں روس پہل کرتا نظرآرہا ہے۔روس کی وزارت خارجہ نے سرکاری خبررساں ادارے تاس (ٹی اے ایس ایس) کو بتایا ہے کہ وہ افغانستان کی طالبان تحریک کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست سے نکالنے کے معاملے پر غور کر رہی ہے۔روسی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ ’جہاں تک طالبان تحریک کی دہشت گرد تنظیم کا درجہ ختم کرنے کی بات ہے تو اس معاملے پر وزارت خارجہ، وزارت انصاف اور دیگر خصوصی ادارے غور کر رہے ہیں، تاہم حتمی فیصلہ ملک کی اعلیٰ سیاسی قیادت کرے گی۔اس سے قبل افغانستان کے لیے روس کے خصوصی صدارتی نمائندے اور وزارت خارجہ کے عہدیدار ضمیر کابلوف نے تاس کو بتایا تھا کہ افغانستان میں برسراقتدار طالبان تحریک کے ایک وفد کو مئی میں ہونے والے قازان فورم میں شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔
کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ یہ ( افغانستان) ایک ایسا ملک ہے جو ہمارے بالکل قریب واقع ہے اور ہم کسی نہ کسی طریقے سے ان کے ساتھ بات چیت کرتے ہیں۔ترجمان نے مزید کہا کہ, “ہمیں اہم مسائل کو حل کرنے کی ضرورت ہے، اس کے لیے بات چیت کی بھی ضرورت ہے، لہذا اس سلسلے میں ہم ان کے ساتھ اسی طرح بات چیت کرتے ہیں جس طرح عملی طور پر ہر ایک سے کرتے ہیں۔ وہ افغانستان میں ڈی فیکٹو اتھارٹی ہیں۔پیسکوف نے ” اہم مسائل” کی وضاحت نہیں کی، لیکن روس کو گزشتہ ماہ اس وقت بیس برسوں میں مہلک ترین حملے کا سامنا ہوا تھا جب چار مسلح افراد نے ماسکو کے باہر کروکس سٹی ہال میں میٹل ڈیٹیکٹرز کی طرف بڑھتے ہوئے 6200 افراد کی گنجائش والے کنسرٹ ہال پر دھاوا بول کر کم از کم 144 افراد کو ہلاک کر دیا۔
ستمبر 2021 میں روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا تھا کہ روس، چین، پاکستان اور امریکہ مل کر کام کر رہے ہیں تاکہ اس امر کو یقینی بنایا جا سکے کہ افغان طالبان اپنے وعدے پورے کریں جن میں خاص طور پر حقیقی نمائندہ حکومت کا قیام اور انتہا پسندی کو پھیلنے سے روکنا شامل ہیں۔اسی مہینے افغان طالبان کی کابینہ میں شامل نائب وزیر اطلاعات ذبیح اللہ مجاہد نے کہا تھا کہ پابندیوں میں کمی کے لیے روس نہ صرف اقوام متحدہ اور افغانستان کے درمیان ثالث بن سکتا ہے بلکہ پابندیوں کے خاتمے کے ساتھ ساتھ افغانستان کی تعمیر نو میں بھی مدد کر سکتا ہے۔
بھارت ایکسپریس۔