Bharat Express

Taliban

پاکستان میں سکیورٹی کی صورتحال نازک ہوتی جا رہی ہے کیونکہ گزشتہ چند مہینوں میں سکیورٹی اہلکاروں پر حملوں کی تعداد میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہوا ہے۔ صوبہ خیبر پختونخواہ میں خاص طور پر کئی سکیورٹی پوسٹوں، قافلوں اور اہلکاروں پر منظم حملے ہوتے رہے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر حملوں کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) پر عائد کی گئی ہے۔

ژنہوا خبر رساں ایجنسی نے مقامی میڈیا آؤٹ لیٹ طلوع نیوز کے حوالے سے رپورٹ کیا کہ وزارت کے مطابق، گزشتہ ایک سال میں مجموعی طور پر 1.78 ملین افغان مہاجرین بیرون ملک سے اپنے وطن واپس جا چکے ہیں۔

خامہ پریس نے مقامی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ افغان فوجی گزشتہ تین دنوں سے ڈیورنڈ لائن کے قریب چوکیاں بنا رہے ہیں۔ دوسری جانب مہاج نیوز نے مقامی اور افغان ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ رات گئے تک فائرنگ کا سلسلہ رک گیا تھا۔

افغانستان کی طالبان حکومت کی طرف سے اس نئے اخلاقی قانون کا اعلان پچھلے ماہ کیا گیا تھا۔ اس نئے اخلاقی ضابطے میں خواتین کا حجاب کرنا ، اپنے چہرے ، سر اور جسم کو ڈھانپنے کے علاوہ اجنبی مردوں کے سامنے اپنی آوازوں کو بھی آہستہ رکھنا شامل ہے۔

سفیر کو تسلیم کرنے کے عمل کو طالبان حکام کی فتح کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے، جو بین الاقوامی سطح پر بڑے پیمانے پر تنہائی کا شکار ہیں۔متحدہ عرب امارات کے ایک عہدیدار نے ایک بیان میں کہا کہ ’دنیا گذشتہ چند برسوں کے دوران افغانستان کو درپیش مسائل تسلیم کرتی ہے۔

پاکستان نے بارہا افغانستان کی عبوری حکومت سے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور دیگر دہشت گرد گروپوں کو اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہ دینے کی درخواست کی ہے۔ حالانکہ، کابل پاکستان کے اس دعوے کو مسترد کرتا رہا ہے۔

30 سال سے زائد انسانی کاموں کے بعد اس ماہ کے آخر میں اقوام متحدہ کو چھوڑنے والے گریفتھس نے کہا کہ دنیا کی حالت اس وقت سے بھی بدتر ہے جب انہوں نے عہدہ سنبھالا تھا۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ ”افغان فریق نے پاکستان سمیت دیگر ممالک کے خلاف کسی بھی دہشت گردی کی کارروائی کے لیے اپنی سرزمین کے استعمال کو روکنے کے لیے اپنے عزم کا اعادہ کیا۔“

گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ کے فوڈ ایجنسی نے کہا تھا کہ افغانستان میں غیر معمولی طور پر شدید موسمی بارشوں سے 300 سے زائد افراد ہلاک اور ہزاروں گھر تباہ ہو گئے ہیں۔

ستمبر 2021 میں روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا تھا کہ روس، چین، پاکستان اور امریکہ مل کر کام کر رہے ہیں تاکہ اس امر کو یقینی بنایا جا سکے کہ افغان طالبان اپنے وعدے پورے کریں جن میں خاص طور پر حقیقی نمائندہ حکومت کا قیام اور انتہا پسندی کو پھیلنے سے روکنا شامل ہیں۔