Bharat Express

Taliban

سفیر کو تسلیم کرنے کے عمل کو طالبان حکام کی فتح کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے، جو بین الاقوامی سطح پر بڑے پیمانے پر تنہائی کا شکار ہیں۔متحدہ عرب امارات کے ایک عہدیدار نے ایک بیان میں کہا کہ ’دنیا گذشتہ چند برسوں کے دوران افغانستان کو درپیش مسائل تسلیم کرتی ہے۔

پاکستان نے بارہا افغانستان کی عبوری حکومت سے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور دیگر دہشت گرد گروپوں کو اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہ دینے کی درخواست کی ہے۔ حالانکہ، کابل پاکستان کے اس دعوے کو مسترد کرتا رہا ہے۔

30 سال سے زائد انسانی کاموں کے بعد اس ماہ کے آخر میں اقوام متحدہ کو چھوڑنے والے گریفتھس نے کہا کہ دنیا کی حالت اس وقت سے بھی بدتر ہے جب انہوں نے عہدہ سنبھالا تھا۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ ”افغان فریق نے پاکستان سمیت دیگر ممالک کے خلاف کسی بھی دہشت گردی کی کارروائی کے لیے اپنی سرزمین کے استعمال کو روکنے کے لیے اپنے عزم کا اعادہ کیا۔“

گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ کے فوڈ ایجنسی نے کہا تھا کہ افغانستان میں غیر معمولی طور پر شدید موسمی بارشوں سے 300 سے زائد افراد ہلاک اور ہزاروں گھر تباہ ہو گئے ہیں۔

ستمبر 2021 میں روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا تھا کہ روس، چین، پاکستان اور امریکہ مل کر کام کر رہے ہیں تاکہ اس امر کو یقینی بنایا جا سکے کہ افغان طالبان اپنے وعدے پورے کریں جن میں خاص طور پر حقیقی نمائندہ حکومت کا قیام اور انتہا پسندی کو پھیلنے سے روکنا شامل ہیں۔

افغانستان پر قبضہ کرنے کے بعد طالبان نے کہا تھا کہ ملک میں شرعی قانون نافذ کیا جائے گا۔ شریعت اسلام پر یقین رکھنے والے لوگوں کے لیے ایک قانونی نظام کی طرح ہے۔ یہ بہت سے اسلامی ممالک میں لاگو ہے۔ تاہم پاکستان سمیت بیشتر اسلامی ممالک میں اس کا مکمل نفاذ نہیں ہے۔

IS-K کے ہزاروں ارکان ہیں اور یہ طالبان کا سب سے بڑا دشمن اور سب سے بڑا فوجی خطرہ ہے۔ جب سے طالبان نے اقتدار سنبھالا ہے، اس گروپ نے افغانستان اور اس سے باہر حملوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔

ہندوستان ان 10 پڑوسی ممالک کی فہرست میں شامل تھا، جنہوں نے پیر کو کابل میں طالبان کی طرف سے بلائی گئی سفارت کاروں کے نمائندوں کی میٹنگ میں حصہ لیا۔

طالبانی سماج میں گھریلو تشدد کا جواب دینے کا طریقہ کار مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے۔ خواتین کے پاس تشدد برداشت کرنے یا خود کو مارنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔خواتین کی خودکشیوں کے بارے میں انتباہات میں شدت آتی جا رہی ہے کیونکہ طالبان خواتین کی زندگی کے ہر پہلو پر کنٹرول سخت کر رہے ہیں۔