Bharat Express

Taliban

ہندوستان ان 10 پڑوسی ممالک کی فہرست میں شامل تھا، جنہوں نے پیر کو کابل میں طالبان کی طرف سے بلائی گئی سفارت کاروں کے نمائندوں کی میٹنگ میں حصہ لیا۔

طالبانی سماج میں گھریلو تشدد کا جواب دینے کا طریقہ کار مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے۔ خواتین کے پاس تشدد برداشت کرنے یا خود کو مارنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔خواتین کی خودکشیوں کے بارے میں انتباہات میں شدت آتی جا رہی ہے کیونکہ طالبان خواتین کی زندگی کے ہر پہلو پر کنٹرول سخت کر رہے ہیں۔

اقوام متحدہ نے 424 سے زائد سابق حکومتی اہلکاروں اور افغان سکیورٹی فورسز کے ارکان کی من مانی گرفتاریوں اور حراستوں کی دستاویز پیش کی ہے جبکہ رپورٹ میں تشدد اور ناروا سلوک کے 144 سے زائد واقعات کو ریکارڈ کیا گیا ہے۔ حالانکہ طالبان نے ابتدائی طور پر سابق حکومت اور بین الاقوامی افواج سے منسلک افراد کے لیے عام معافی کا وعدہ کیا تھا۔

اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے کے مطابق، 2001 میں طالبان کے خاتمے کے بعد کئی سالوں تک مغربی ممالک کے پیسے کے ذریعے پھیلنے والی بدعنوانی میں کمی آئی ہے۔ایسی علامات بھی ہیں کہ طالبان کی منشیات کی کاشت پر پابندی نے پوست کی پیداوار میں ڈرامائی طور پر کمی کر دی ہے جو برسوں سے دنیا میں افیون کا سب سے بڑا ذریعہ رہا ہے۔

Blast In Afghanistan: افغانستان کے کھوست صوبہ کے ایک ہوٹل میں زبردست دھماکہ ہوا ہے، جس میں تین لوگ مارے گئے ہیں، جبکہ 7 افراد زخمی ہیں۔

ہندوستان نے ایک تکنیکی ٹیم افغانستان میں اپنے سفارت خانے کو واپس بھیج دی ہے اور ان کا کام بنیادی طور پر صورتحال پر نظر رکھنا ہے اور یہ دیکھنا ہے کہ نئی دہلی افغان عوام کی کس طرح مدد کر سکتا ہے۔

ہندوستان اہم امداد فراہم کرنے والے کے طور پر افغانستان میں اپنے سافٹ پاور کو مضبوط کر رہا ہے، ایران سے گزر کر اور کبھی ناگزیر پاکستان کو اب سائیڈ لائن کر رہا ہے۔اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کے ایک نمائندے نے حال ہی میں بتایا کہ ہندوستانی عطیہ 20,000 میٹرک ٹن گندم اگلے دو مہینوں میں افغانستان پہنچنے کی توقع ہے۔

افغان طالبان اور دیگر اسلامی گروہوں کی حمایت کی وجہ سے عمران خان کو پاکستان میں طالبان خان کا لقب دیا گیا ہے

مریم درانی نے افغانستان کے قندھار میں خواتین کے لئے جم کھولا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ جم بنانے کے لئے دہائیوں سے آواز اٹھاتی رہی ہیں۔ خواتین حقوق کے لئے جدوجہد کرنے والی 36 سالہ مریم درانی کا یہ قدم قابل تعریف ہے۔

پاکستان میں طالبان کی بڑھتی ہوئی دہشت گردی نے وقت کو ایک دہائی پیچھے دھکیل دیا ہے۔ آج پاکستان اسی تنظیم کی دہشت گردانہ کارروائیوں پر لگام لگانے کے لیے پریشان ہے جسے وہ کبھی پناہ دیتا تھا۔