پوری دنیا میں الگ تھلگ قرار دیئے جاچکے ملک افغانستان کو ایک وقت میں دو دو بڑی خوشخبری ملی ہے۔ افغانستان کی طالبان حکومت کیلئے پہلی اچھی خبر یہ ہے کہ اسے قبول کرنے یا تسلیم کا آغاز ہوگیا ہے اور اس میں یواے ای نے پہل کی ہے۔ وہیں دوسری بڑی خوشخبری افغانستان کیلئے یہ ہے کہ اب ایئرلائنز کمپنیوں نے افغانستانی ایئراسپیس کو استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔دراصل متحدہ عرب امارات نے جمعے کو افغانستان کی طالبان حکومت کے سفیر کی سفارتی اسناد قبول کر لی ہیں اور چین کے بعد ایسا کرنے والا دوسرا ملک بن گیا ہے۔فرانسیسی خبررساں ایجنسی (اے ایف پی) کے مطابق جب کابل کی وزارت خارجہ نے سوشل میڈیا پر اعلان کیا کہ ابوظبی میں ایک تقریب میں نئے سفیر مولوی بدرالدین حقانی کا استقبال کیا گیا ہے، اس کے بعد تیل کی دولت سے مالا مال اس خلیجی ریاست نے بیان جاری کیا کہ وہ افغان عوام کی مدد کی غرض سے’راہ نکالنے‘ کے لیے پرعزم ہے۔
سفیر کو تسلیم کرنے کے عمل کو طالبان حکام کی فتح کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے، جو بین الاقوامی سطح پر بڑے پیمانے پر تنہائی کا شکار ہیں۔متحدہ عرب امارات کے ایک عہدیدار نے ایک بیان میں کہا کہ ’دنیا گذشتہ چند برسوں کے دوران افغانستان کو درپیش مسائل تسلیم کرتی ہے۔ افغانستان کے سفیر کی اسناد قبول کرنے کا فیصلہ افغانستان کے عوام کی مدد کے لیے راستے بنانے میں اپنا کردار ادا کرنے کے ہمارے عزم کا اعادہ ہے۔
وہیں دوسری اچھی خبر یہ ہے کہ ایئرلائنز نے برسوں بعد افغانستان کی فضائی حدود استعمال کرنا شروع کر دی ہے۔سنگاپور ایئرلائنز، برٹش ایئرویز اور لفتھانسا نے کئی برس سے گریز کرنے کے بعد اب اپنی پروازوں کے لیے افغانستان کی فضائی حدود استعمال کرنا شروع کر دی ہیں کیونکہ مشرق وسطیٰ کے تنازع نے اس ملک کو نسبتاً محفوظ آپشن بنا دیا ہے۔برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق افغانستان ایشیا اور یورپ کے درمیان فضائی روٹس پر واقع ہے، لیکن تین سال قبل جب طالبان نے اقتدار سنبھالا اور فضائی ٹریفک کنٹرول سروسز بند ہو گئیں تو کیریئرز نے زیادہ تر افغانستان سے آمدورفت بند کر دی تھی۔
یہ آمد و رفت ابھی تک دوبارہ شروع نہیں ہوئی، لیکن ایئر لائنز ایران اور اسرائیل کے درمیان خطرناک فضائی حدود سے زیادہ افغانستان کو محفوظ سمجھتی ہیں۔ جب 2022 میں یوکرین کی جنگ شروع ہوئی تو بہت سی ایئرلائنز نے ایران اور مشرق وسطی کے روٹس استعمال کرنا شروع کر دیے تھے جب روسی فضائی حدود زیادہ تر مغربی کیریئرز کے لیے بند ہو گئی تھیں۔
بھارت ایکسپریس۔