Bharat Express

Clash on Pak-Afghan Border: پاک افغان سرحد پر تصادم، کہیں پاکستان پر بھاری نہ پڑ جائے ٹی ٹی پی، سوویت یونین اور امریکہ جیسی طاقتوں کو دھول چٹا چکا ہے طالبان

ٹی ٹی پی کا گڑھ افغانستان اور پاکستان کی سرحد کے آس پاس کے قبائلی علاقے ہیں جہاں سے وہ اپنے جنگجوؤں کو بھرتی کرتا ہے۔ طالبان پاکستان کی فوجی طاقت سے بخوبی واقف ہیں، اس لیے وہ ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھائیں گے۔ اگر تنازعہ کو آگے بڑھاتے ہیں تو اس کے پیچھے اس کی سوچی سمجھی حکمت عملی ہوگی۔

پاک افغان سرحد پر تصادم

اسلام آباد: پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ سرحد پر جھڑپیں جاری ہیں۔ خدشہ ہے کہ یہ سلسلہ کہیں کسی بڑے تصادم کی شکل اختیار نہ کر لے۔ ہفتے کے روز سرحدی چوکیوں پر شدید جھڑپ میں 19 پاکستانی فوجی اور تین افغان شہری مارے گئے تھے۔ امو ٹی وی کے مطابق پاکستانی فوج نے اعتراف کیا کہ طالبان نے ’بغیر اکساوے‘ کے سرحد کے قریب اس کی چوکیوں پر بھاری ہتھیاروں سے فائرنگ کی ہے۔

پاکستان کی مسلح افواج کی جانب سے ہفتے کے روز سوشل میڈیا پر جاری کردہ ایک رپورٹ میں، پاکستانی فوج نے کہا کہ اس کی فورسز نے جوابی کارروائی کی، جس میں 15 سے زائد عسکریت پسند ہلاک اور طالبان جنگجوؤں کو کافی نقصان پہنچا۔ فوج نے کہا کہ یہ جھڑپ مبینہ طور پر افغان طالبان عناصر کی حمایت یافتہ دراندازی کی کوشش کی وجہ سے ہوئی۔ حالانکہ، طالبان نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ حملہ حالیہ پاکستانی فضائی حملوں کا جواب ہے۔

یہ جھڑپیں منگل کی رات پکتیکا صوبے میں پاکستانی فضائی حملے کے بعد ہوئیں۔ فضائی حملے میں خواتین اور بچوں سمیت 51 افراد مارے گئے۔ اگر یہ تنازعہ بڑی شکل اختیار کرتا ہے تو یہ پاکستان کے لیے سنگین مسائل پیدا کر سکتا ہے۔ فوجی طاقت ایک چیز ہے لیکن طالبان کا ریکارڈ ایسا رہا ہے کہ اسے کمزور نہیں سمجھا جا سکتا۔

طالبان پہلے سوویت یونین اور امریکہ جیسی طاقتوں کے ساتھ تصادم میں الجھا رہا ہے۔ دونوں کو شکست دینے اور انہیں افغانستان سے نکالنے کا سہرا اس کے سر ہے۔ طالبان خود کو افغانستان میں سب سے بڑی طاقت کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ وہ دو بار کابل میں اقتدار پر قبضہ کر چکے ہیں۔ ایسی صورتحال میں پاکستان کے لیے اس طرح کا تصادم آسان نہیں ہو گا، وہ بھی اس وقت جب اس کی معیشت شدید بحران کا شکار ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق افغان طالبان اب پاکستان پر اپنا انحصار کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور دوسرے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے پر توجہ دے رہے ہیں۔ کئی دہائیوں تک پاکستان کو افغان طالبان کا محافظ سمجھا جاتا تھا۔ پاکستان نے اس گروپ کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اسلام آباد اسے پناہ، فنڈنگ ​​اور سفارتی مدد فراہم کرتا رہا ہے۔ 9/11 کے حملوں کے بعد افغانستان پر امریکہ کی قیادت میں حملے کے بعد، کئی افغان طالبان رہنماؤں نے پاکستان میں پناہ لی۔

پاکستان کے سرحدی علاقوں میں امریکی ڈرون حملوں کے درمیان تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی یا پاکستانی طالبان) ابھر کر سامنے آیا جو آج پاکستان کے لیے سب سے بڑا چیلنج بن گیااور اس وقت افغان طالبان کشیدگی کی بڑی وجہ ہے۔ ٹی ٹی پی کا مقصد پاکستانی مسلح افواج اور ریاست کے خلاف دہشت گردی کی مہم چلا کر پاکستان حکومت جو اکھاڑ پھینکنا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق وہ پاکستان کی منتخب حکومت کو بے دخل کرنا چاہتا ہے اور اسلامی قانون کے مطابق حکومت بنانا چاہتا ہے۔

ٹی ٹی پی کا گڑھ افغانستان اور پاکستان کی سرحد کے آس پاس کے قبائلی علاقے ہیں جہاں سے وہ اپنے جنگجوؤں کو بھرتی کرتا ہے۔ طالبان پاکستان کی فوجی طاقت سے بخوبی واقف ہیں، اس لیے وہ ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھائیں گے۔ اگر تنازعہ کو آگے بڑھاتے ہیں تو اس کے پیچھے اس کی سوچی سمجھی حکمت عملی ہوگی۔

بھارت ایکسپریس۔

Also Read