Bharat Express

Israel Gaza War: غزہ کے نوزائیدہ بچوں کو اس طرح پہنچائی جا رہی ہے گرمی، کب ختم ہوگی دنیا کی بے حسی؟

اسرائیل نے مکمل طور پر اسپتالوں کو ہدف بنا رہا ہے۔ پیر کے روزاسرائیلی فوج کے ٹینک غزہ کے اہم اسپتال کے مین گیٹ تک پہنچ گئے۔ غزہ کے الشفاء اسپتال میں ایندھن کی کمی ہو جانے سے بڑا بحران پیدا ہوگیا ہے۔

اسرائیل نے ایک بار پھر غزہ کے ہسپتال پر کی بمباری، حماس نے حملے کے لئے بائیڈن کو ٹھہرایا ذمہ دار

Israel Palestine Conflict: اسرائیل اور غزہ کے درمیان جاری جنگ کا آج 38 واں دن ہے۔ 7 اکتوبر کو حماس نے غزہ پٹی سے اسرائیل کی طرف 5000 سے زیادہ راکٹ داغے تھے۔ حماس کے اس حملے میں تقریباً 1400 اسرائیلی ہلاک ہوئے تھے۔ اس کے بعد سے ہی اسرائیل کی طرف سے جوابی کارروائی جا ری ہے۔ لیکن اس جوابی کارروائی میں معصوم اور بے قصور لوگوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ لوگ کھانا اور پانی کے لئے ترس رہے ہیں، دواؤں کا کوئی انتظام نہیں ہے، ڈاکٹر کسی طرح سے مریضوں کا علاج کر رہے ہیں۔ اسرائیل نے مکمل طور پر اسپتالوں کو ہدف بنا رہا ہے۔ پیر کے روزاسرائیلی فوج کے ٹینک غزہ کے اہم اسپتال کے مین گیٹ تک پہنچ گئے۔ غزہ کے الشفاء اسپتال میں ایندھن کی کمی ہو جانے سے بڑا بحران پیدا ہوگیا ہے۔

نیوزایجنسی رائٹرس کی رپورٹ کے مطابق، ایندھن کی سپلائی بند ہونے سے مشینیں اورمیڈیکل ایکیوپمنٹس نہیں چل رہے ہیں، جس سے مریضوں کی موت ہو رہی ہے۔ اس میں نوزائیدہ بچے بھی شامل ہیں۔ وہیں ایکیوبیٹر میں نوزائیدہ بچوں کو ایک دوسرے سے سٹاکر رکھا جا رہا ہے۔ تاکہ انہیں ہیومن ہیٹ سے صحیح ٹیمپریچر دیا جاسکے۔ ڈاکٹروں کے مطابق، ایک بیڈ پر 39 بچے لٹائے گئے ہیں۔ اسرائیل کے اعدادوشمار کے مطابق، 7 اکتوبر سے شروع ہوئے جنگ میں اب تک 12000 افراد مارے گئے ہیں۔ حماس نے 240 لوگوں کو یرغمال بناکرغزہ کی سرنگوں میں چھپاکر رکھا ہے۔ اس جنگ میں نصف سے زیادہ غزہ کے لوگ بے گھرہوگئے ہیں۔

اسرائیل نے شمالی غزہ کے نصف حصے کو پوری طرح سے خالی کرنے کا حکم دیا ہے۔ غزہ کے میڈیکل افسران کا کہنا ہے کہ جنگ کے درمیان 11000 سے زیادہ لوگوں کے جاں بحق ہونے کی تصدیق ہوچکی ہے، جن میں سے تقریباً 40 فیصد بچے ہیں۔ الشفاء اسپتال کے شعبہ اطفال (پیڈیاٹرک ڈپارٹمنٹ) کی حالت انتہائی تشویشناک ہے۔ یہاں نوزائیدہ بچے ایک دوسرے کے ساتھ پڑے ہیں۔ ان میں سے کچھ بچوں کو سبزکپڑے میں لپیٹا جاتا ہے، جسے گرم کرنے کے لئے ان کے گرد ٹیپ سے موٹا باندھا جاتا ہے۔ باقی بچوں کو صرف نیپی پہن کر رکھا گیا ہے۔ اسپتال میں ہرگزرتے منٹ کے ساتھ ان بچوں کی جانوں کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے۔

نوزائیدہ بچوں کو غزہ کے الشفاء اسپتال میں مجبورڈاکٹروں کی نگرانی میں رکھا گیا ہے۔ یہ اسپتال اسرائیلی ٹینکوں سے گھرا ہوا ہے۔ یہاں بجلی، پانی، کھانا، دواؤں اور میڈیکل ڈیوائس کی قلت ہے۔ الشفاء اسپتال میں پیڈیاٹرک ڈپارٹمنٹ کی ہیڈ ڈاکٹر محمد تباشا نے پیرکو ایک ٹیلی فونک انٹرویو میں کہا کہ کل یہاں 39 بچے تھے اور آج تعداد 36 ہوگئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نہیں کہہ سکتا کہ وہ کتنے وقت تک چل سکیں گے۔ میں آج یا آئندہ ایک گھنٹے میں دومزید بچوں کو گنوا سکتا ہوں۔

وقت سے پہلے پیدا ہوئے بچے کا وزن 1.5 کلو گرام (3.3 پاؤنڈ) سے کم ہوتا ہے اور کچھ معاملوں میں صرف 700 یا 800 گرام ہوتا ہے۔ ان بچوں کو انکیوبیٹرمیں رکھا جانا چاہئے، جہاں ٹمپریچراور ہیومیڈیٹی (نمی) کو ان کی ذاتی ضرورتوں کے مطابق، کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹر تباشا نے کہا کہ اس کے بجائے بجلی کی کمی کے سبب ان بچوں کا انکیوبیٹر سے جنرل بیڈ پر لے جانا پڑا۔ انہیں ایک دوسرے کے برابر میں لٹایا گیا ہے۔ کچھ نیپی کے پیکٹ دیئے گئے ہیں۔ بیڈ پراسٹرائل گاج اور پلاسٹک کی تھیلیاں بھی پڑی ہیں۔ ڈاکٹر تباشا نے مزید کہا کہ میں نے اپنی اب تک کی زندگی میں کبھی بھی نہیں سوچا تھا کہ میں 39 بچوں کو ایک بیڈ پررکھوں گی۔ ان میں سے ہربچے کو الگ الگ بیماری ہوگی۔ میڈیکل اسٹاف اوردودھ کی زبردست کمی کے سبب یہ بچے ایسے ہی رہ رہے ہیں۔

  -بھارت ایکسپریس