سات اکتوبر کو فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس کے کارکنان کی جانب سے اسرائیل کے متعدد شہروں پر کئے گئے حملوں کے بعد اسرئیلی فوجیوں کی جانب سے جوابی کاروائی کے نام غزہ کی تیئس لاکھ آبادی پر جو ظلم و تشدد کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں دنیا اس پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ اس معاملہ پر دنیا دو خیموں میں تقسیم ہوچکی ہے ،عالمی ادارے بھی وقتاً فوقتاً رسمی طور پر مذمتی بیان جاری کرنے کو ہی اپنی ذمہ سمجھ رہے ہی ہے۔
اسرائیل کی جانب سے غزہ کی آبادی پر بموں برسات کی جارہی ہے،خواتین اور معصوم بچوں کی جانیں جارہی ہیں،غزہ کی آبادی کی اگر بات کی فیصد بچے ہیں، اب تک اکتالیس سو بچے جام شہادت نوش کر چکے ہیں، اس کے علاوہ اگر اس جنگ میں صحافیوں کی بات کی جائے تو اب تک مجموعی طور 39 صحافیوں کی موت ہوئی ہے جن میں 34 فلسطینی،چار اسرائیلی اور ایک لبنانی صحافی شامل ہیں۔
اسرائیلی فوج کی جانب سے کئے گئے حملوں میں خواتین اور معمر افراد کی بھی جانیں جارہی ہیں،اسرائیلی فورسیز ہسپتالوں اور ایمبو لینس کو بھی نشانہ بنانے سے گریز نہیں کر رہے ہیں۔
دوسری طرف اسرائیلی وزیردفاع یوآوگیلنٹ نے کہا ہے کہ “یرغمالیوں کی واپسی کے بغیرانسانی بنیادوں پرکوئی جنگ بندی نہیں ہو سکتی”۔ انہوں نے کہا کہ ان کی افواج اب غزہ شہرکے مرکزمیں ہے۔ اب اسرائیل حماس کوغزہ میں حکومت کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔ انہوں نے کہا کہ جنگ کے بعد غزہ میں نہ اسرائیل اور نہ حماس کوئی بھی حکومت نہیں کرے گا۔
بھارت ایکسپریس۔