شادی ایک ایسا مقدس رشتہ ہے جس میں پوری زندگی ساتھ رہنے کا عہد وپیمان ہوتا ہے۔ ایک دوسرے کے علاوہ کسی کے بارے میں سوچنا بھی غلط سمجھا جاتا ہے۔لیکن یوپی میں کچھ لالچی لوگوں نے اس رشتے کو بھی نہیں چھوڑاہے۔ حد تو یہ ہے کہ اجتماعی شادی اسکیم میں دستیاب رقم کا فائدہ حاصل کرنے کے لیے کچھ شادی شدہ افراد نے غیر شادی شدہ ہونے کا بہانہ بنا کر فائدہ اٹھالیا ہے۔ اس سارے معاملے میں کرپٹ سسٹم کی مدد بھی سامنے آرہی ہے۔ آپ نے بڑے گھوٹالوں کے بارے میں تو سنا ہوگا، لیکن غازی آباد میں جس طرح کا گھوٹالہ ہوا، وہ جان کر آپ یقیناً حیران ہو جائیں گے۔ کیونکہ یہ شادیاں مکمل طور پر کاغذ پر ہوئیں ہیں۔ اس لیے نہ جوڑوں کی رخصتی ہوئی اور نہ ہی بہوؤں کو منہ دکھائی دی جاسکی۔
کسی نے اپنی بیوی کی شادی کرائی تو کسی نے اپنی شادی شدہ بیٹی کی
غازی آباد میں اجتماعی شادی اسکیم میں دھاندلی کی تحقیقات میں آئے روز نئے انکشافات سامنے آرہے ہیں۔ ایسا ہی ایک معاملہ ہے جس میں مودی نگر علاقہ میں ایک عوامی سہولت سینٹر کے آپریٹر چار بچوں کے باپ منوج نے اپنی بیوی کو غیر شادی شدہ بتا کر 75 ہزار روپے کی گرانٹ رقم حاصل کرلی۔ اس معاملے میں تفتیشی افسر نے عوامی سہولت سنٹر کے آپریٹر کے خلاف رپورٹ بنا کر پروجیکٹ ڈائریکٹر کو بھیج دی۔ پوچھ گچھ کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ مودی نگر کے رہنے والے عوامی سہولت سینٹر کے آپریٹر منوج کی ساس لیبر بورڈ میں رجسٹرڈ ہے۔ اس پر اس نے خود کو اور اپنی بیوی ڈولی کو غیر شادی شدہ قرار دے کر اپنی ساس کی مدد سے گرانٹ حاصل کر لی۔
قریب 13سالہ لڑکے کی ماں نے بھی خود کو غیر شادی شدہ بتا یا
تحقیقات میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ سکیم کے تحت 75 ہزار روپے کی گرانٹ حاصل کرنے کے لیے ورکرز نے نہ صرف کاغذات میں ہیرا پھیری کی بلکہ پہلے سے قائم رشتوں کو بھی نظر انداز کیا۔ جس میں کسی کی بیٹی کی تین سال پہلے شادی ہوئی تھی اور کسی کی بیٹی کا 13 سال کا بیٹا ہے۔ ان لوگوں نے خود کو غیر شادی شدہ ہونے کا دعویٰ کرکے اسکیم کا فائدہ اٹھایا۔ تحقیقات میں دھوکہ دہی کا انکشاف ہونے کے بعد محکمہ محنت کے اہلکاروں نے سیہانی گیٹ تھانے میں چھ مقدمات درج کرائے ہیں۔
یہ کرپشن کب کیا گیا؟
یہ گھوٹالہ تقریباً دس ماہ قبل 24 نومبر 2022 کو ہوا تھا۔ جس میں پیسوں کے لالچ میں دلال نے سرکاری مشینری سے ملی بھگت کر کے جوڑوں کو شادی کے مقام پر بٹھایا۔ حد تو تب ہو گئی جب کسی نے اپنی بیوی کو، کسی نے اپنی بہو کو اور کسی نے اپنی شادی شدہ بیٹی کو غیر شادی شدہ قرار دے کر اجنبیوں کے ساتھ بٹھا دیا۔ شادی کے نام پر پکڑ دھکڑ اور تصویریں وغیرہ بھی لی گئیں۔ اس کے بعد خواتین اور اہل خانہ یہاں سے اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔ لڑکی کی شادی کی مد میں حکومت سے 75 ہزار روپے لینے کا لالچ تھا۔ اس کا فائدہ اٹھانے کے لیے کچھ کارکنوں نے اپنی پہلے سے شادی شدہ بیٹیوں کے جھوٹے کاغذات بنا کر اسکیم کے لیے اپلائی کیا اور گرانٹ لے لی۔ بعد میں جب معاملہ سامنے آیا تو پولیس نے محکمہ لیبر کی جانب سے دی گئی شکایت کی بنیاد پر مقدمہ بھی درج کرلیا۔اور اب کاروائی کی تیاری چل رہی ہے۔
دراصل ہوا یوں کہ غازی آباد میں ہونے والی یہ اجتماعی شادی زیادہ تر جوڑوں کے لیے محض ایک دن کی شادی بن گئی۔ جیسے ہی یہ اسکیم سامنے آئی، دلالوں نے ان مزدوروں سے رابطہ کیا جو محکمہ لیبر میں رجسٹرڈ تھے۔ انہوں نے کارکنوں کو 10-20 ہزار روپے مفت دینے کا فریب دیا۔ اور بدلے میں اسے کچھ کاغذات پر دستخط کرنے یا انگوٹھے کا نشان لگانے پر آمادہ کیا گیا۔ مزدور پیسے کے لالچ کی وجہ سے راضی ہو گئے۔ اس کے بعد دلالوں نے اپنی بیٹیوں کی شادی کے لیے اپنے آدھار کارڈ، تصویر اور دیگر دستاویزات کے ساتھ آن لائن فارم بھرے اور سرکاری افسران کی ملی بھگت سے ایسے تمام فرضی فارموں کو منظور کروا لیا۔
سرکاری رقم حاصل کرنے کے لیے شادی کا ڈرامہ
اس کے بعد شادی کی تاریخ یعنی 24 نومبر 2022 آگئی، چونکہ فارم بھرا گیا تھا اور پیسے حاصل کرنے تھے، اس لیے دلال کچھ دیر کے لیے مختلف جوڑوں کو شادی کے مقام پر لے گئے اور انہیں وہاں بٹھا دیا۔ تصویریں کھنچوائی گئیں، سات پھیرے کا ڈرامہ کیا گیا اور پھر سب کو خالی ہاتھ بھیج دیا گیا۔ حد تو یہ ہوئی کہ پیسے قبضہ کرنے کے لیے کئی ایسے جوڑے جو ایک دوسرے کو جانتے بھی نہیں تھے، شادی کر لی، کسی نے اپنی بہو کو اپنی بیٹی بنا کر دوسری شادی کروا دی، کسی نے اپنی شادی شدہ بیٹی کی دوبارہ شادی کر الی۔، کسی نے چند گھنٹوں کے لیے شادی کی اداکاری کی اور پھر اپنے راستے پر چلا گیا۔ اور کچھ معاملات ایسے بھی تھے جن میں ایسے لوگوں نے شادیاں کیں جو اس دنیا میں بھی نہیں تھے یعنی سب کچھ صرف کاغذوں پر ہوا۔
اس انکشاف کے بعد بھی انتظامیہ بیدار نہیں ہوئی
کسان یونین کا دعویٰ ہے کہ صرف غازی آباد ضلع میں اس اسکیم میں تقریباً 280 کروڑ روپے کا گھپلہ ہوا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اتنا پیسہ کرپٹ افسران، بابوں اور دلالوں نے ہضم کر لیا۔ تاہم، سرکاری افسران کی پردہ پوشی کے باوجود، کسان یونین نے اس معاملے کو آگے بڑھانا نہیں چھوڑا اور اپنی تحقیقات شروع کیں اور تقریباً 175 کیس اسٹڈیز کا پتہ چلا۔ کسان یونین کا کہنا ہے کہ 175 میں سے 171 کیس ایسے پائے گئے جن میں فراڈ ہوا تھا۔ لیکن اس کے باوجود ضلعی انتظامیہ اور محکمہ لیبر کا رویہ لاپرواہ رہا۔ قانون کے مطابق اتنے بڑے انکشاف کے بعد ضلعی انتظامیہ کو چاہیے تھا کہ ضلع میں ہونے والی تمام 3500 شادیوں کی چھان بین کر کے ان میں سے کتنی صحیح اور کتنی غلط تھیں،معلوم کرے، لیکن انتظامیہ اور محکمہ لیبر نے ایسا نہیں کیا۔
لوک آیکت نے جانچ کی
مزید یہ کہ کسان یونین نے اس سلسلے میں لکھنؤ کے لوک آیکت سے شکایت بھی کی۔ ان کی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ لوک آیکت نے ضلع انتظامیہ کو اس معاملے کی تحقیقات کا حکم دیا۔ لوک آیکت نے ضلع انتظامیہ سے 15 دن کے اندر معاملے کی جانچ کرکے رپورٹ پیش کرنے کو کہا ہے۔ تبھی انتظامیہ جاگ گئی اور ضلع انتظامیہ نے تین لوگوں پر مشتمل کمیٹی بنا کر معاملے کی جانچ کرائی۔ کمیٹی نے تقریباً 800 صفحات کی رپورٹ تیار کی اور رپورٹ لوک آیکت کو بھیج دی گئی۔
ڈپٹی لیبر کمشنر نے جواب دینے سے گریز کیا
ذرائع کی مانیں تو اس رپورٹ میں ایسے ایسے عجیب اور چونکا دینے والے انکشافات ہیں کہ حقیقت جان کر کوئی بھی حیران رہ جائے گا۔ غازی آباد میں اس بڑے گھوٹالے کے حوالے سے ڈپٹی لیبر کمشنر انوراگ مشرا سے بھی بات کی گئی، لیکن ان کا رویہ بھی ٹال مٹول ہی رہا۔ اس نے یہ کہہ کر سوالوں کو ٹالنے کی کوشش کی کہ اس نے حال ہی میں چارج سنبھالا ہے۔
دلالوں نے تیار کیا تھا ناپاک منصوبہ
دلالوں اور سسٹم کی ملی بھگت کی وجہ سے انتہائی غریب طبقے سے آنے والے لوگوں کے ناموں پر اجتماعی شادیاں رجسٹرڈ کی گئیں، شادیاں بھی ان کے بچوں کے نام پر کی گئیں۔ سرکاری محکمے نے ان لوگوں کو ملنے والی رقم جاری کر دی لیکن انہیں اس کا علم تک نہیں ہوا۔ اس طرح کے کئی کیسز ہیں جن میں دلالوں نے مزدوروں سے ان کی شادی شدہ بیٹیوں کے کاغذات لے کر پیسے چرائے اور مزدور بس دیکھتے ہی رہ گئے۔ اب اگر محنت کشوں کے بیان حلفی پر نظر ڈالی جائے تو مزدور دعویٰ کر رہے ہیں کہ کس طرح دلالوں نے ان کی شادی شدہ بیٹیوں کے کاغذات بنا کر کے کھیل کھیلا ہے۔
کنیا ویواہ یوجنا میں بڑا گھوٹالہ
دراصل حکومت کی لڑکیوں کی شادی کی اسکیم کے تحت ایسی شادیاں ہر ضلع میں ہونی تھیں۔ چنانچہ بلند شہر کے 16 بلاکس میں اجتماعی شادیوں میں تقریباً 535 شادیاں ہوئیں، جن میں سے کئی فرضی تھیں۔ جب تفتیش ہوئی تو ایک بابو بے نقاب ہوا اور وہ گرفتارکرلیا گیا۔ اس کے بعد ہاپوڑ میں ہونے والی 835 شادیوں میں بھی گھوٹالے سامنے آئے اور اب غازی آباد میں کنیا ویواہ یوجنا کے تحت ہونے والی شادیوں کی کہانی وہی ہے۔ یہاں تقریباً 3 ہزار 2 سو شادیاں ہوئیں، جن میں بڑے پیمانے پر گھوٹالے ہوئے۔ دلالوں نے دستاویزات لے کر محنت کشوں کے جعلی بینک اکاؤنٹس کھولے، رقم لے کر آپس میں بانٹ لی۔ ذرائع کی مانیں تو کئی سرکاری افسروں اور بابوؤں کے کھاتوں میں لاکھوں روپے پہنچ گئے ۔ صرف غازی آباد میں 12 سے 15 دلال تھے جو راتوں رات امیر ہو گئے۔ ایک گھر میں رہنے لگے۔ ایک بڑی گاڑی لی۔اور عیش کرنے لگے۔لیکن بھولے بھارے مزدور کل بھی خالی ہاتھ تھے ،آج بھی خالی ہاتھ ہیں۔
بھارت ایکسپریس۔