تحریر: اسٹیو فاکس
بھارت کی معیشت تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔ اقوام متحدہ کانفرنس برائے تجارت و ترقی نے ۲۰۲۲ء کے لیے بھارتی معیشت کی شرح نموکا تخمینہ ۵ اعشاریہ ۷ رکھا جب کہ ہارورڈ یونیورسٹی کے گروتھ لیب پروجیکٹ نے پیشن گوئی کی کہ۲۰۳۰ء تک بھارتی معیشت کا شماردنیا کی سب سے تیزرفتارمعیشتوں میں ہوگا۔
ترقی اپنے ساتھ چیلنج اورمواقع دونوں لاتی ہیں۔ اس طورپر بھارت کے پاس سستی اور توانائی بچانے والی عمارتیں تعمیر کرنے کا ایک اچھا موقع ہے۔ ایسا اس لیے کیوں کہ بھارت میں اگلے ۲۰ برسوں میں نئے بنیادی ڈھانچے کا کم وبیش ۷۰ فی صد شہری علاقوں میں تعمیر ہوگا۔
عمارتیں توانائی اور ماحولیاتی دونوں محاذوں پر انتہائی اہم ہیں۔ ان کا بھارت کی مجموعی بجلی کی کھپت میں ۳۵ فی صد حصہ ہے اور یہ ماحول مضر گیسوں کے اخراج کا بڑا سبب ہیں۔
پی ایم اے وائی منصوبہ
وزیر اعظم کا رہائشی منصوبہ (پی ایم اے وائی) ایک ایسا ہی منصوبہ ہے جس کے تحت توانائی بچانے والے اور ماحول دوست گھر تعمیر کیے جاتے ہیں۔ حکومت سے امداد یافتہ اس منصوبے کے تحت لکھنؤ میں کم آمدنی والی شہری آبادیوں کے لیے ۱۱ اعشاریہ ۲ ملین سستے اور ماحولیاتی لحاظ سے پائیدار مکانات تعمیر کیے جا رہے ہیں۔
لکھنؤ ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے)، جو شہرمیں منصوبہ بند ترقی اوربنیادی ڈھانچے کی تعمیر کا ضامن ادارہ ہے، نے پائیدار بنیادی شہری ڈھانچے کی تعمیرکے لیے امریکی ایجنسی برائے عالمی ترقی (یوایس ایڈ) کے ساتھ مل کرکام کیا ہے۔ ایل ڈی اے نے پی ایم اے وائی کے تحت ماحول دوست مکانات کی تعمیرکے دوران یو ایس ایڈ کے تعاون سے تیارکردہ توانائی کی بچت والی عمارتوں کے طریقہ کار کو استعمال کیا ہے۔ مزید برآں ،یوایس ایڈ نے معیاربرائے ماحول دوست عمارت یا جی بی سی بھی تیار کیا ہے۔ اس میں توانائی بچانے والے مکانات کی تعمیر کے واسطے بعض معیارات کی نشاندہی کی گئی ہے جن پرکاربند ہوکرمکانات میں بجلی اورپانی کی کھپت میں خاطرخواہ کمی لائی جا سکتی ہے۔ ایل ڈی اے کی تمام رہائشی اورتجارتی عمارتوں میں جی بی سی کی پاسداری لازمی قراردی گئی ہے۔
لکھنؤ کے ماحول دوست مکانات
پی ایم اے وائی کے تحت جو مکانات تعمیرکیے جا رہے ہیں ان میں اندر کی آواز باہر اور باہر کی آواز اندر آنے سے روکنے کے لیے خاص تعمیراتی اشیاء استعمال کی جاتی ہیں۔ ان مکانات میں توانائی بچانے کے لیے ایل ای ڈی کا استعمال ہوتا ہے اور قدرتی روشنی اندر داخل ہو اس کا بھی خیال رکھا جاتا ہے، نیز پانی بچانے والے آلات بھی نصب کیے جاتے ہیں۔ یہ مکانات سو فی صد ماحول دوست تعمیراتی اشیا ءسے تعمیرکیے جا رہے ہیں۔ پی ایم اے وائی منصوبے کے تحت تعمیر ہونے والی عمارتوں کے ۱۵فی صد حصے میں ہریالی ہوتی ہے۔ جہاں ممکن ہو وہاں قدرتی درختوں کو محفوظ رکھا جاتا ہے، بارش کے پانی کو جمع کرنے سے لے کر گاڑیوں کو کھڑا کرنے کی عوامی جگہ کی دستیابی جیسی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ ہر بلاک میں سولر پینل بھی نصب کیے جاتے ہیں۔
سنہ ۲۰۰۰ءسے اب تک یو ایس ایڈ بھارت میں توانائی کی بچت والے کئی پروگرام چلا چکی ہے۔ ۲۰۰۲ ء میں یو ایس ایڈ کی کوششوں کے نتیجے میں کنفیڈریشن آف انڈین انڈسٹریز (سی آئی آئی) اور یو ایس گرین بلڈنگ کونسل (یو سی جی بی سی) نے مل کر انڈین گرین بلڈنگ کونسل (آئی جی بی سی) کی تشکیل کی راہ ہموار کی۔ یہیں سے بھارت میں توانائی کی بچت والی اور ماحول دوست عمارتوں کی تعمیر کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ ۲۰۰۲ ءمیں ایک ماحول دوست عمارت کی تعمیر کے ساتھ ملک میں آج ان کی تعداد پانچ ہزار سے بھی تجاوز کر گئی ہے۔ یہ عمارتیں چھ بلین مربع فٹ پر پھیلی ہیں اور ان کی مانگ بڑھتی ہی جا رہی ہے۔
یو ایس ایڈ نے بھارت میں سرکاری، عوامی اور نجی اداروں کے ساتھ مل کر یو ایس جی بی کو اپنا تعاون فراہم کیا ہے تاکہ دوسرے ممالک میں بھی ایک وسیع تر علاقائی ماحول دوست مکانات کے بازار قائم کرنے کے لیے ایک عسکری نقطۂ نظر پر کام کیا جاسکے۔
یو ایس ایڈ کا پروگرام نافذ کرنے والی کمپنی انوائرونمنٹل ڈیزائن سولوشنس (ای ڈی ایس) نے۲۰۰۲ء میں اپنے قیام کے بعد سے دنیا بھر میں ۳۵۰ سے زیادہ ماحول دوست عمارتوں اور توانائی کی بچت کے منصوبوں پر کام کیا ہے۔ یو ایس ایڈ انڈیا کے جان ا سمتھ سرین دعویٰ کرتے ہیں ’’ہمارے تعاون نے لوگوں، اداروں اورطبقات کے لیے عمارتوں اور شہروں میں توانائی کی بچت کے طریقہ کار کو اپنانے اور فروغ دینے کے مواقع فراہم کیے ہیں۔‘‘
بشکریہ سہ ماہی اسپَین میگزین، شعبہ عوامی سفارت کاری، پریس آفس، امریکی سفارت خانہ ، نئی دہلی
بھارت ایکسپریس۔