یو سی سی سے قبل آسام میں کثرتِ ازدواج پر پابندی
ایک طرف یکساں سول کوڈ پر بحث ہو رہی ہے اور دوسری طرف آسام حکومت کثرت ازدواج پر پابندی لگانے کی تیاری کر رہی ہے۔ آسام کے وزیر اعلیٰ ہمانتا بسوا سرما نے اعلان کیا ہے کہ حکومت کثرت ازدواج کو روکنے کے لیے اگلے اسمبلی اجلاس میں ایک بل لائے گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر کسی وجہ سے اگلے اجلاس میں بل منظور نہیں ہوا تو جنوری میں بل لایا جائے گا۔ کانگریس پر طنز کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کانگریس کو کثرت ازدواج کی حمایت نہیں کرنی چاہئے۔ اسے مسلم خواتین کے ساتھ کھڑا ہونا چاہئے چاہے اس کا مطلب کچھ ووٹ ہی کیوں نہ پڑے۔
آسام حکومت نےکثرت ازدواج کو روکنے کے لیے قانون بنانے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی۔ اگر کمیٹی ستمبر سے پہلے اپنی رپورٹ دے دیتی ہے تو اگلے اسمبلی اجلاس میں ہی اس کے لیے بل لایا جائے گا۔ لیکن اگر رپورٹ میں تاخیر ہوئی تو بل جنوری میں پیش کیا جائے گا۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب وزیر اعلیٰ سرما نے کثرت ازدواج پر پابندی کے لیے قانون لانے کی بات کی ہو۔ اس سے قبل مئی میں انہوں نے کہا تھا کہ یہ پابندی کسی خاص کمیونٹی کے لیے نہیں ہوگی بلکہ تعدد ازدواج کے پورے رواج کے خلاف ہوگی۔
آسام میں تعدد ازدواج پر ہنگامہ کیوں؟
وزیر اعلیٰ ہمانتا بسوا سرما کے مطابق وادی بارک کے تین اضلاع اور ہوجائی اور جمنا مکھ کے علاقوں میں کثرت ازدواج کا رواج ہے۔ تاہم تعلیم یافتہ طبقے میں اس کی شرح بہت کم ہے اور مقامی مسلم آبادی میں بھی یہ اتنی موجود نہیں ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بچوں کی شادی کے خلاف آپریشن میں یہ بات سامنے آئی کہ کئی بزرگوں نے ایک سے زیادہ شادیاں کیں اور ان کی بیویوں میں زیادہ تر نوجوان لڑکیاں تھیں جو معاشرے کے غریب طبقے سے تعلق رکھتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آج بھی ریاست میں کئی قبائلی برادریوں میں کثرت ازدواج کا رواج ہے۔ تاہم اب یہ کمیونٹی کے بجائے انفرادی ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسے بھی بہت سے معاملات ہیں جہاں مردوں کی پہلی بیوی ہوتی ہے اور چونکہ تعدد ازدواج ممنوع ہے اس لیے وہ بغیر شادی کیے دوسری عورتوں کے ساتھ رہتے ہیں
آسام میں تعدد ازدواج پر اعداد و شمار کیا کہتے ہیں؟
ممبئی میں قائم انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پاپولیشن سائنسز کی ایک رپورٹ اپریل میں آئی تھی۔ یہ رپورٹ نیشنل فیملی ہیلتھ سروے کے ڈیٹا کی بنیاد پر تیار کیا گیا ہے۔ اس تحقیق میں بتایا گیا کہ پابندی کے باوجود بھارت میں کثرت ازدواج کا رواج اب بھی رائج ہے اور ایسا نہیں ہے کہ تعدد ازدواج اب بھی صرف مسلمانوں میں ہو رہا ہے بلکہ ہندوؤں اور دیگر مذاہب میں بھی ہو رہا ہےاس اعداد و شمار کے مطابق، دیگر ریاستوں کے مقابلے شمال مشرقی ہندوستان میں تعدد ازدواج زیادہ عام ہے۔ اروناچل پردیش، آسام، منی پور، میگھالیہ، میزورم، ناگالینڈ، سکم اور تریپورہ میں تعدد ازدواج سب سے زیادہ ہے۔ ان میں کثیر ازدواج کی شرح منی پور میں سب سے زیادہ ہے۔
بھارت ایکسپریس۔