![](https://urdu.bharatexpress.com/wp-content/uploads/2025/02/Dscff-ezgif.com-jpg-to-webp-converter.webp)
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ روز کہا تھا کہ نقل مکانی کرنے والے فلسطینیوں کو مستقل طور پر غزہ سے باہر آباد کیا جانا چاہیے ،انہوں نے یہ بھی اعلان کیا تھا کہ امریکہ غزہ پر قبضہ کرلے گا اور وہاں کے تعمیر نو کے کام کو انجام دے گا۔ حالانکہ امریکی صدر کے اس بیان کی دنیا بھر میں مذمت ہوئی۔ عرب اور مسلم ممالک نے بھی اس کو یکسر مسترد کردیا۔ سعودی عرب نے بھی کھل کر اس کی مخالفت کی۔ لیکن ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ ان کی یہ تجویز ہر کسی کو پسند آئی ہے۔ ایسے میں ٹرمپ کا پلان کچھ اس انداز کا بن رہا ہے کہ اگر وہ سعودی عرب کو اس بات کیلئے قائل کرلیتا ہے تو یہ مرحلہ آسان ہوجائے گا۔وہیں ٹرمپ کے پہلے دوراقتدار میں لائے گئے ابراہم معاہدے کو ایک بار پھر ایکشن میں لانے کیلئے سعودی عرب سے مشاورت کی پہل کی جائے گی،تاکہ سعودی عرب کو اس میں شامل کرکے اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کیا جاسکے۔ ٹرمپ اپنے اس منصوبے پر کافی سنجیدگی سے کام کررہے ہیں اور انہوں نے جلد سعودی عرب کا دورہ کرنے کا اعلان بھی کردیا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سعودی عرب کا دورہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ میں جلد سعودی عرب اور مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک کا دورہ کروں گا۔امریکی صدر کا سعودی عرب کا دورہ ریاستہائے متحدہ امریکہ کی صدارت سنبھالنے کے بعد ان کے پہلے غیر ملکی دوروں میں سے ایک ہوسکتاہے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس سے قبل کہا تھا کہ سعودی ولی عہد اور وزیراعظم شہزادہ محمد بن سلمان ایک عظیم انسان ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کے درمیان اچھے تعلقات ہیں۔صدر ٹرمپ نے نشاندہی کی کہ سعودی عرب امریکہ میں 600 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔ ہم ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان، سعودی وزیر اعظم سے بات کریں گے، واشنگٹن میں سعودی سرمایہ کاری کی مالیت کو دوگنا کرکے 1 ٹریلین ڈالر کرنے کے امکان پر بات کریں گے۔ اس سے قبل ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ خطے میں امن کی بحالی کے لیے ولی عہد اور وزیر اعظم شہزادہ محمد بن سلمان کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔لیکن کیا اس میں اسرائیل سے دوستی اور غزہ کا سودا شامل ہوگا یا نہیں ،یہ وقت بتائے گا۔
وہیں سعودی عرب نے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے مؤقف کو ایک مرتبہ پھر دہراتے ہوئے کہا ہے کہ مملکت کا طویل مدت سے یہی نظریہ ہے کہ فلسطینیوں کی ایک خودمختار ریاست ہونی چاہیے اور یہ ایک پختہ مؤقف ہے جس پر مذاکرات ممکن نہیں ہیں۔صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے غزہ کو امریکی ’ملکیت‘ میں لینے اور فلسطینیوں کو اپنی زمین سے بے دخل کرنے سے متعلق بیان کے کچھ دیر بعد سعودی وزارت خارجہ نے بیان جاری کیاہے۔بیان کے مطابق مملکت اور اس کے رہنماؤں کا طویل مدت سے یہی مؤقف رہا ہے اور وہ بارہا فلسطینیوں کے لیے انصاف کا مطالبہ کرتے آئے ہیں، ان کے بقول دہائیوں سے جاری تنازعے کے پائیدار حل کے طور پر اسرائیل کے ساتھ فلسطینی اپنی ریاست کے مستحق ہیں۔
حالانکہ یہ اعلامیہ اور بیانیہ حقیقت میں کتنا سنجیدہ ہے ،یہ آنے والے وقت میں واضح ہوجائے گا،البتہ ماہرین کا ماننا ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنی پہلی مدت صدارت میں سب سے پہلے سعودی عرب کا دورہ کرکے ایک خاص پیغام دیا تھااور اس بار بھی وہ سب سے پہلے سعودی عرب کا دورہ کرکے یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ امریکہ سعودی مشن کی تکمیل میں ہرممکن تعاون کیلئے پیش پیش ہے،البتہ امریکہ کی اپنی بھی کچھ خواہشیں ہیں اور ان میں سے ایک سعودی عرب کو خطے میں امن کے نام پر ابراہم معاہدے میں شامل کرنا اور مسئلہ فلسطین کو جڑ سے ختم کرنے کیلئے امریکہ کے قبضے میں لینا ہے۔ان دونوں معاملوں پر سعودی عرب کو قائل کرنے یا دبانے کیلئے ایک بار پھر ٹرمپ نے سب سے پہلے سعودی جانے کا فیصلہ کیا ہے۔دیکھا ہوگا کہ محمد بن سلمان اس سودے بازی کو قبول کرتے ہیں یا امریکہ سے ناراضگی مول لیتے ہیں۔ٹرمپ کے سعودی دورے کی تاریخ کا اعلان فی الحال باقی ہے۔
بھارت ایکسپریس۔