لکھنؤ: آج ایم ایل اے ڈاکٹر راجیشور سنگھ نے سروجنی نگر میں منعقد “جن اکروش پد یاترا” میں حصہ لیا۔ اس دوران انہوں نے بنگلہ دیش میں ہندو برادری کی تیزی سے کم ہوتی آبادی اور حملوں پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے بتایا کہ 1947 میں ہندو آبادی 30 فیصد تھی، جو اب کم ہو کر صرف 8.5 فیصد رہ گئی ہے۔ 1971 کی نسل کشی میں تقریباً 30 لاکھ ہندو مارے گئے یا بے گھر ہو گئے۔ ڈاکٹر سنگھ نے بنگلہ دیش میں نافذ امتیازی ‘ویسٹڈ پراپرٹی ایکٹ’ کی طرف بھی اشارہ کیا جس کی وجہ سے 60 فیصد ہندو کے پاس زمین نہیں ہے ۔ انہوں نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ 2013 سے اب تک 4000 سے زیادہ ہندوؤں پر حملے ہوئے ہیں اور گزشتہ 22 سالوں میں 500 سے زیادہ مندروں کو تباہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے ان مظالم کو روکنے اور امتیازی قوانین کو ختم کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
بنگلہ دیش کے علاوہ ڈاکٹر راجیشور سنگھ نے پاکستان اور افغانستان میں ہندو آبادی کی کم ہوتی ہوئی تعداد پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ پاکستان میں ہندو آبادی 10 فیصد سے کم ہو کر 2 فیصد اور افغانستان میں 1 فیصد سے کم ہو گئی ہے۔ ہندوستان میں بھی 1951 سے 2011 تک اتر پردیش میں ہندو آبادی میں 5 فیصد کمی آئی ہے، جب کہ کیرالہ میں یہ کمی 14 فیصد رہی ہے۔ اسے تشویشناک قرار دیتے ہوئے ڈاکٹر سنگھ نے کہا کہ ہندو سماج کو ان عدم توازن کو سمجھنا ہوگا اور ان کے حل کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔ اس موقع پر ڈاکٹر راجیشور سنگھ نے ہندو برادری کو تحفظ کا مسئلہ صرف کمیونٹی کا مسئلہ نہیں بلکہ انسانیت کی بقا کے لیے اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ وقت بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر ہندو برادری کی سلامتی کے لیے آواز اٹھانے کا ہے۔
بھارت ایکسپریس