سابق ایم پی ڈاکٹر ایس ٹی حسن
مرادآباد: اتر پردیش میں 9 اسمبلی سیٹوں پر 20 نومبر کو ضمنی انتخابات ہوں گے۔ تمام سیاسی جماعتوں کے امیدوار طرح طرح کے وعدے کر کے ووٹرز کو اپنی طرف متوجہ کر رہے ہیں۔ مرادآباد کی کندرکی اسمبلی سیٹ کے لیے مقابلہ دلچسپ ہونے والا ہے۔ اس سیٹ پر برسوں سے سماج وادی پارٹی (ایس پی) کا قبضہ رہا ہے۔ ایسے میں یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ ایس پی اپنی روایت کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہو پاتی ہے یا نہیں۔
اس دوران ایس پی کے سابق ایم پی ڈاکٹر ایس ٹی حسن نے کندرکی اسمبلی سیٹ پر ایس پی کی جیت کا دعویٰ کرتے ہوئے بی جے پی پر طنز کیا ہے۔ ایس پی لیڈر نے کہا کہ کندرکی اسمبلی سیٹ ایک روایتی سماجوادی سیٹ ہے۔ اس علاقے کے ہندو اور مسلمان ایس پی کو ووٹ دیتے ہیں۔ ہمیں پوری امید ہے کہ ایس پی بھاری فرق سے جیتنے والی ہے۔ لوگ دباؤ میں ضرور ہیں، لیکن منصفانہ اور بے خوف ووٹنگ ہوتی ہے تو ایس پی کو جیتنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
وہیں، بی جے پی کا کہنا ہے کہ لوگ اس بار بدلاؤ کے موڈ میں ہیں۔ اس پر انہوں نے کہا کہ بی جے پی یہ کیسے کہہ سکتی ہے؟ بی جے پی نے ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ جو سلوک کیا ہے، وہ اسے کیسے بھول سکتے ہیں۔ بی جے پی نے اتر پردیش، اتراکھنڈ اور آسام میں مسلمانوں کے ساتھ جو سلوک کیا ہے، وہ اسے کیسے بھول سکتے ہیں۔ مسلمانوں کے گھروں کو بلڈوزر سے مسمار کر دیا گیا۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا مساجد اور درگاہوں پر بلڈوزر نہیں چلائے گئے؟ کیا لوگوں کو اذان سے پریشانیاں نہیں ہوئیں؟ نماز سے پریشانیاں نہیں ہوئیں؟ مدارس سے نہیں ہوئیں۔ تو بی جے پی کیسے کہہ سکتی ہے کہ مسلم ووٹر کا اس کی طرف رجحان ہے؟ ہم مسلمان ایک اللہ کو ماننے والے اور اپنے ایمان پر رہنے والے ہیں۔ اپنے ایمان کی حفاظت کے لیے ہم ہر قربانی دے سکتے ہیں۔
بی جے پی کے وزراء کہتے ہیں کہ اس بار مسلمان ہمارے ساتھ ہیں۔ اس پر انہوں نے کہا کہ حکومت ہے، حکومت کا دباؤ ہے، انتظامیہ کا دباؤ ہے۔ یہ تو پولنگ کے بعد ہی پتہ چلے گا کہ کیا ہوا؟ یہ جتنا دباؤ بنائیں گے، اتنا ہی زیادہ سماج وادی پارٹی کا ووٹ بڑھے گا۔
بھارت ایکسپریس۔