مرکز کے زیر انتظام جموں کشمیر کی ریاستی اسمبلی کے پہلے اجلاس میں آرٹیکل 370 کی بحالی کے لیے قرارداد پیش کی گئی جس پر اسمبلی کی کارروائی ہنگامہ آرائی کی نذر ہو گئی۔ایوان میں ہنگامہ آرائی اُس وقت شروع ہوئی جب پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کے ایک رکن وحید پرا نے جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370 کے خاتمے کے خلاف ایک قرارداد پیش کی۔اس کے بعد ایوان میں موجود بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ارکان نے قرارداد کی شدید مخالفت کی اور نعرے بازی بھی کی۔ سیاسی جماعتوں کے ارکان کے شور شرابے کے سبب اجلاس کی کارروائی کچھ وقت کے لیے معطل بھی کرنا پڑی۔
قرار داد پیش کرتے ہوئے پی ڈی پی رکن اسمبلی وحیدپرا نے ایوان سے خطاب کرتے ہوئے کہا، “جناب سپیکر، آپ کو ایوان کا سپیکر منتخب ہونے پر مبارکباد دیتا ہوں۔ ہمیں آپ کے تجربے سے بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا۔ آج میں اپنی پارٹی کی طرف سے ایک قرارداد پیش کرنا چاہتا ہوں، جس میں آرٹیکل 370 کی بحالی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ان کی قرارداد پر بی جے پی کے ارکان اسمبلی نے شدید احتجاج کیا اور سپیکر سے مطالبہ کیا کہ قرارداد کو فوری طور پر مسترد کیا جائے۔سپیکر عبد الرحیم راتھر نے بی جے پی ارکان کو پرسکون کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہاکہ یہ میرا اختیار ہے، مجھے اس کا جائزہ لینے دیں، پھر میں فیصلہ کروں گا۔ تاہم، بی جے پی کے 28 ارکان نے بیٹھنے سے انکار کرتے ہوئے قرارداد کی شدید مخالفت جاری رکھی۔
وہیں دوسری جانب جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے پی ڈی پی کے رہنما وحید پرا کی جانب سے آرٹیکل 370 کی بحالی کے لیے پیش کی گئی قرارداد پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ جموں و کشمیر کی عوام 5 اگست 2019 کے فیصلے کو منظور نہیں کرتی۔انہوں نے زور دے کر کہا کہ اگر لوگوں نے اس فیصلے کی حمایت کی ہوتی تو آج حالات مختلف ہوتے۔ عمر عبداللہ نے مزید کہا کہ یہ قرارداد کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتی اور محض ایک تشہیری حربہ ہے۔عمر عبداللہ نے کہا کہ ایوان میں اس معاملے پر بحث اور غور ایک رکن کی مرضی سے طے نہیں ہوگا۔ انہوں نے قرارداد کے مقصد پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ اگر یہ اقدام واقعی سنجیدہ ہوتا تو پیش کرنے والوں نے پہلے اُن (نیشنل کانفرنس) سے بات چیت کی ہوتی۔
بھارت ایکسپریس۔