Citizenship Act S.6A: جمعرات (17 اکتوبر 2024) کو شہریت قانون کی دفعہ 6A پر سپریم کورٹ کی آئینی بنچ میں ایک اہم سماعت ہوئی۔ سپریم کورٹ کی پانچ ججوں کی آئینی بنچ نے آسام معاہدے کو آگے بڑھانے کے لیے 1985 میں ترمیم کے ذریعے شہریت ایکٹ کی دفعہ 6A کی آئینی جواز کو برقرار رکھا۔
چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ، جسٹس سوریہ کانت، ایم ایم سندریش اور منوج مشرا نے اکثریتی فیصلہ سنایا، جب کہ جسٹس جے بی پاردی والا نے اختلاف کیا۔ سیکشن 6A 1985 میں آسام معاہدے میں شامل کیا گیا تھا تاکہ بنگلہ دیش سے غیر قانونی تارکین وطن کو شہریت کے فوائد میں توسیع کی جاسکے جو 1 جنوری 1966 سے 25 مارچ 1971 کے درمیان آسام آئے تھے۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کیا کہا؟
سی جے آئی چندرچوڑ نے کہا کہ اکثریت کا فیصلہ ہے کہ شہریت قانون کی دفعہ 6A آئینی طور پر درست ہے۔ جسٹس پاردی والا نے قانون میں ترمیم کو غلط قرار دیا ہے۔ آپ کو بتاتے چلیں کہ اکثریت نے ترمیم کو درست قرار دیا ہے۔ یعنی یکم جنوری 1966 سے 24 مارچ 1971 تک بنگلہ دیش سے آسام آنے والے لوگوں کی شہریت کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔ اعداد و شمار کے مطابق آسام میں 40 لاکھ غیر قانونی تارکین وطن ہیں۔ مغربی بنگال میں ایسے لوگوں کی تعداد 57 لاکھ ہے، پھر بھی آسام کی کم آبادی کو دیکھتے ہوئے وہاں کے لیے الگ سے کٹ آف ڈیٹ کرنا ضروری تھا۔ چیف جسٹس آف انڈیا چندر چوڑ نے کہا کہ 25 مارچ 1971 کی کٹ آف ڈیٹ درست ہے۔
یہ بھی پڑھیں- Weather Update: دہلی-این سی آر میں بڑھی آلودگی، AQI لیول خراب، 7 ریاستوں میں شدید بارش کی وارننگ
اس پورے فیصلے کو اس طرح سمجھیں
آسان الفاظ میں، 1985 کے آسام اکارڈ اور سٹیزن شپ ایکٹ کی دفعہ 6A کو سپریم کورٹ نے 4:1 کی اکثریت کے ساتھ برقرار رکھا ہے۔ اس کے تحت یکم جنوری 1966 سے 25 مارچ 1971 تک مشرقی پاکستان (اب بنگلہ دیش) سے آسام آنے والوں کی شہریت برقرار رہے گی۔ اس کے بعد آنے والے افراد کو غیر قانونی شہری تصور کیا جائے گا۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ آسام کی کم آبادی کو دیکھتے ہوئے کٹ آف ڈیٹ کرنا درست ہے۔
-بھارت ایکسپریس