Bharat Express

تعلیمی نظام میں سماجی مساوات کا حصول، سست روی کا شکار، جماعت اسلامی ہند کے زیراہتمام ماسٹرٹرینرز کورس میں مقررین کا اظہارتشویش

ڈاکٹرسعادت نے ہندوستانی تعلیمی نظام میں گہری جڑپکڑنے والی ذات پات پرمبنی درجہ بندی کواجاگرکرتے ہوئے کہا کہ تاریخی طورپر گروکل نظام میں تعلیم زیادہ تراعلیٰ ذات کے افراد تک محدود تھی۔

نئی دہلی: جماعت اسلامی ہند کے زیر اہتمام مرکزی تعلیمی بورڈ کی جانب سے منعقدہ ماسٹرٹرینرزکورس کے دوران ایک آن لائن سیشن کا انعقاد کیا گیا، جس کا موضوع ‘‘ہندوستانی علمی نظام کا تاریخی جائزہ‘‘ تھا۔ یہ لیکچرڈاکٹرسعادت حسین (ایم اے ڈویلپمنٹ اسٹڈیز، ایم فل اورپی ایچ ڈی اکنامکس آف ایجوکیشن، جے این یو) نے دیا۔ اس سیشن میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے اساتذہ، طلباء اوردیگرافراد نے شرکت کی۔ اس موقع پرڈاکٹرسعادت حسین نے ہندوستانی تعلیمی نظام کی ترقی، موجودہ چیلنجزاورتعلیمی نظام میں اصلاحات اورجمہوریت کو فروغ دینے کی تاریخی کوششوں پرروشنی ڈالی اورنظام میں موجود سماجی ناانصافیوں اورمساوی تعلیمی مواقع کے لئے جاری جدوجہد پربات کی۔

ڈاکٹرسعادت نے ہندوستانی تعلیمی نظام میں گہری جڑپکڑنے والی ذات پات پرمبنی درجہ بندی کواجاگرکرتے ہوئے کہا کہ تاریخی طورپر گروکل نظام میں تعلیم زیادہ تراعلیٰ ذات کے افراد تک محدود تھی۔ یہ اجارہ داری آج بھی بہت سے جدید اداروں میں موجود ہے، جہاں امیر طبقہ غالب ہے اورپسماندہ طبقات کومعیاری تعلیم تک محدود رسائی حاصل ہے۔ ڈاکٹر سعادت نے ان رہنماؤں کی بصیرت کو سراہا، جنہوں نے ذات پات کی درجہ بندی کو ختم کرنے اورمعاشرے کے تمام طبقات کے لیے تعلیم تک رسائی کو یقینی بنانے کی کوشش کی۔
سیشن کا ایک اہم حصہ ہندوستانی تعلیمی پالیسی کے بنیادی اصولوں پرمبنی آئین سازاسمبلی کے مباحثوں (constitution assembly debate) پرمرکوزتھا۔ ڈاکٹرسعادت نے تعلیم کے حق کوبنیادی حق بنانے میں پیش آنے والے چیلنجزپربھی تفصیل سے بات کی۔ مباحثے میں ایم رتھنا سوامی اورآلادی کرشنا سوامی جیسے اراکین شامل تھے، جنہوں نے ہرایک کے لئے مفت تعلیم فراہم کرنے کی راہ میں حائل مالی رکاوٹوں پربھی روشنی ڈالی۔ ڈاکٹرسعادت نے ایک خاص اہم لمحے کواجاگر کیا جو 23 نومبر1948 کوپیش آیا، جب آئین سازاسمبلی نے ایک مسودہ پربحث کی، جس میں یہ کہا گیا کہ مفت اورلازمی پرائمری تعلیم ہربچے کو 14 سال کی عمرتک دی جانی چاہئے اورآئین کے نفاذ کے 10 سال کے اندراندراس کی فراہمی کا عزم کیا گیا اوراسے آرٹیکل 45 میں شامل کیا گیا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ آئین سازاس مسئلے کو فوری طور پرحل کرنے کے لیے کافی سنجیدہ تھے۔

ڈاکٹر سعادت نے اپنے خطاب کے آخرمیں اس بات پرزوردیا کہ ہندوستان کے آئینی رہنماؤں کے وژن کے مطابق شمولیاتی اورقابل رسائی تعلیم کے اصولوں کوبرقرار رکھنے کے لیے نئے سرے سے کوششیں کی جانی چاہئیں۔ انہوں نے معاشرتی عدم مساوات کے چیلنجوں کو حل کرنے اور اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت پر زوردیا کہ ہر بچے کو، خواہ وہ کسی بھی پس منظر سے ہو، معیاری تعلیم تک رسائی حاصل ہو۔ یہ معلوماتی سیشن ہندوستانی تعلیمی نظام کی پیچیدہ تاریخ کو سمجھنے اوراصلاحات کے لیے کی جانے والی جدوجہد پر روشنی ڈالتا ہے۔ یہ سیشن اساتذہ، پالیسی سازوں اور عام عوام کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل تھا۔ شرکاء نے پوری دلجمعی کے ساتھ سیشن میں ہونے والی گفتگوکوسنا اوراپنی آراء پیش کی۔

بھارت ایکسپریس