پیجر دھماکے کے بعد اسرائیل اور ایران کے درمیان تنازعہ کافی بڑھ گیا ہے۔ حالیہ دھماکے میں ایران کے سفیر مجتبیٰ امانی بھی شدید زخمی ہوئے۔ اس حملہ میں ان کی آنکھ پر چوٹ آئی ہے۔ اس واقعے کے بارے میں اقوام متحدہ میں ایرانی سفیر نے کہا ہے کہ وہ اس حملے کے خلاف کارروائی کریں گے۔ ایرانی سفیر نے کہا کہ ایران بین الاقوامی قوانین کے تحت اپنے حقوق کا تحفظ کرے گا۔ لبنان اور ایران نے ان حملوں کا الزام اسرائیل پر عائد کیا ہے۔
آپ کو بتاتے چلیں کہ اس سے قبل حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کو تہران میں شہید کر دیا گیا تھا۔ اس کے بعد ایران نے کہا تھا کہ وہ اس قتل کا بدلہ لے گا۔ لیکن انہوں نے ابھی تک اسرائیل پر حملہ نہیں کیا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ایران ایک مکمل جنگ اور بھاری نقصان سے بچنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ساتھ ہی اب توجہ اس بات پر مرکوز ہے کہ ایران اپنے سفیر پر حملے کے بعد کیا اقدام کرے گا۔
عراق کے ساتھ کئی سالوں سے جاری جنگ میں ایران کو بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ اس جنگ نے ایران کو معاشی اور سماجی طور پر تباہ کر دیا۔ اس جنگ کے بعد ایران کسی بھی قیمت پر ایک اورجنگ نہیں چاہتا۔ عراق پر امریکی حملے کے بعد ایران نے اپنی پراکسی پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ لیکن اب اسے اگلے مرحلے کے لیے بہت زیادہ وسائل کی ضرورت ہے۔
ایران کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اگر اس نے اسرائیل پر حملہ کیا تو امریکہ بھی اس جنگ میں براہ راست ملوث ہو جائے گا۔ اس سے اسے مالی طور پر بہت زیادہ نقصان ہوگا۔ حال ہی میں ایران نے حماس اور حزب اللہ جیسے گروپوں کی مدد سے اپنے مفادات حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔
ریڈ لائن کی حفاظت ایران کے لیے اہم ہے۔
ایران اس وقت علاقائی جنگ سے دور رہنا چاہتا ہے۔ ایران کے لیے اس وقت ریڈ لائن تیل اور گیس کی سہولیات، بندرگاہیں اور ڈیم، علاقائی سالمیت اور اس کے سربراہ مملکت کی سلامتی سب سے پہلے آتی ہے۔
بھارت ایکسپریس۔