Bharat Express

سپریم کورٹ نے مغربی بنگال کی عدالتوں کو جانبدار قرار دینے پر سی بی آئی کی سرزنش کی، مولانا محمود مدنی نے کہی یہ بڑی بات

سی بی آئی نے سپریم کورٹ سے یہ درخواست کی تھی کہ مغربی بنگال کی عدالتوں میں جاری 45 مقدمات کو صوبے سے باہر دوسری عدالتوں میں منتقل کردیا جائے، جن میں 200 سے زائد افراد ماخوذ ہیں۔ ان میں ان 13 مسلمانوں کا بھی مقدمہ ہے، جن کو انتخاب کے بعد ہوئے تشدد کا ملزم بنا یا گیا تھا۔

مولانا محمود مدنی کی قیادت میں جمعیۃ علماء ہند مغربی بنگال کے ایک معاملے میں سپریم کورٹ میں مقدمہ کی پیروی کررہی ہے۔

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے جمعہ کے روز (20 ستمبر) کو مغربی بنگال میں بعد ازانتخابات تشدد کے مقدمات کو صوبے سے باہرمنتقل کرنے کی درخواست پرسی بی آئی کوسخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ عدالت نے درخواست میں مغربی بنگال کی عدالتوں پرلگائے گئے بے ہودہ الزامات پرناراضی کا اظہارکیا۔ واضح رہے کہ سی بی آئی نے سپریم کورٹ سے یہ درخواست کی تھی کہ مغربی بنگال کی عدالتوں میں جاری 45 مقدمات کو صوبے سے باہر دوسری عدالتوں میں منتقل کردیا جائے، جن میں 200 سے زائد افراد ماخوذ ہیں۔ ان میں ان 13 مسلمانوں کا بھی مقدمہ ہے، جن کو انتخاب کے بعد ہوئے تشدد کا ملزم بنا یا گیا تھا۔ ان کا مقدمہ جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی کی ہدایت پر لڑا جارہا ہے اورجمعیۃ علماء ہند کی کوشش سے رواں سال 4 جنوری 2024 کو سپریم کورٹ نے ضمانت منظورکرلی تھی۔

کیا ہے پورا معاملہ؟
دراصل، پورا معاملہ یہ ہے کہ 02 مئی 2021 کی شام 8 بجے متوفی ہرن ادھیکاری کوسیاسی عداوت کے سبب ظالمانہ طورپرمارا پیٹا گیا، جس کی تاب نہ لاکرانہوں نے دم توڑ دیا۔ بعد میں پولس نے قربان، یونس، ہمایوں، رقیب ملا، عثمان ملا، معین الدین،ممریز ملا، ریشما ملا، سپریا بی بی، سراجل، سیف القاضی، داؤدعلی ملا سمیت 17 ملزمان کے خلاف مقدمہ دائر کیا، ان میں کچھ ملزمان نے ضلع عدالت سے پیشگی ضمانت لے لی تھی۔ 25 جون 2022 کو کلکتہ ہائی کورٹ نے سی بی آئی کی سفارش پر بروئی پور ضلع مجسٹریٹ کی عدالت کے ذریعہ پیشگی ضمانت کو کالعدم کردیا تھا، جس کے بعد ملزمین کے لیے راحت کی امید ختم ہو گئی تھی۔ حالاں کہ یہ فساد دو سیاسی پارٹیاں بی جے پی اور ٹی ایم سی کے کارکنان کی سیاسی عداوت کا نتیجہ تھا، لیکن فرقہ پرست عناصر نے اسے ہندو مسلم رنگ دے کر علاقے میں نہ صرف نفرت کی فضا ہموار کرنے کی کوشش کی، بلکہ اس کے نتیجے میں یک طرفہ طور پر غریب بے قصور مسلم نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا۔ ان غریب ملزمین کے اہل خانہ کی گزارش پر صدرجمعیۃعلماء ہند مولاناسید محمود اسعد مدنی کی ہدایت پر مقرر کردہ وکلاء نے نومبر2022 میں سپریم کورٹ میں اسپیشل پٹیشن A Nos.10830-10834/2022 داخل کی، سپریم کورٹ نے پہلی سماعت میں ہی ملزمین کو عارضی طور پر پروٹیکشن دے دیا تھا کہ سی بی آئی انھیں گرفتار نہیں کرے گی، لیکن حسب ضرورت پوچھ تاچھ کے لیے طلب کرے گی۔ بالآخر 4؍ جنوری کو اپنے حتمی فیصلے میں سپریم کورٹ نے ملزمین کی مستقل ضمانت منظورکرلی۔

جمعیۃ علماء ہند کی ٹیم کررہی ہے پیروی

اس معاملے میں سپریم کورٹ میں جمعیۃ علماء ہند کی طرف سے ایڈوکیٹ سید مہدی امام اورایڈوکیٹ محمد نوراللہ پیروی کررہے ہیں جبکہ مرکزی دفترجمعیۃ علماء ہند سے ایڈوکیٹ نیازاحمد فاروقی قانونی نگرانی اورریاستی جمعیۃ علماء مغربی بنگال کے صدرمولانا صدیق اللہ چودھری اورناظم اعلی مفتی عبدالسلام قاسمی متاثرین سے رابطے میں ہیں۔ لیکن سی بی آئی نے سپریم کورٹ میں یہ عرضی داخل کی تھی کہ اس مقدمہ کو بھی ریاست سے باہر منتقل کرنے کا حکم دیا جائے ۔اس سلسلے میں اپنی دلیل میں سی بی آئی نے ایک حیرت انگیز استدلال یہ کیا کہ مغربی بنگال کی عدالتیں انصاف نہیں کرتیں اور وہاں عدالتیں عناد پر مبنی فیصلے کررہی ہیں۔ عدالت کے خلاف اس طرح کا تبصرہ سن کر سخت ناراضی کا اظہار کرتےجسٹس ابھے ایس اوکا اور جسٹس پنکج متھل پر مشتمل بنچ نے معاملے کی سماعت کے دوران سی بی آئی کے ایڈیشنل سالیسٹرجنرل ایس وی راجو کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، مسٹر راجو، یہ کس قسم کی باتیں ہیں کہ مغربی بنگال کی تمام عدالتوں کا رویہ معاندانہ ہے؟ یعنی آپ دعوی کررہےہیں کہ عدالتیں غیرقانونی طورپرسماعت کررہی ہیں۔ یہ پورے عدالتی نظام پر شک کرنے کے مترادف ہے۔”

سالسٹر جنرل نے تسلیم کی خامی

ایس وی راجو نے تسلیم کیا کہ عرضی میں خامی ہے، اس لیے اس میں ترمیم کی اجازت دی جائے، عدالت نے صاف کہا کہ یہ عرضی خارج کی جاتی ہے اور صرف عذداری نہیں چلے گی بلکہ تحریری معافی مانگنی ہو گی ۔جسٹس اوکا نے کہا کہ آپ کے افسران کو کسی عدالتی افسر یا کسی ریاست کے بارے میں ذاتی طور پر ناگواری ہو سکتی ہے، لیکن یہ کہنا کہ پوری عدلیہ بے ایمان ہے ، بہت نازیبا بات ہے۔ ضلعی ججز اور سول ججز یہاں آ کر اپنا دفاع نہیں کر سکتے۔

مولانا محمود مدنی کا انصافی کی لڑائی جاری رکھنے کا عزم 
دریں اثنا صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا محمود اسعد مدنی نے کلکتہ فساد میں ناحق پکڑے گئے لوگوں کے لیے انصاف کی لڑائی جاری رکھنے کا عزم ظاہرکیا اورکہا کہ حیرت ہے کہ اس معاملے میں سی بی آئی کی سفارش پر کلکتہ ہائی کورٹ نے ان لوگوں کی ضمانت عرضی خارج کردی تھی ، ہمارے وکلاء نے سپریم کورٹ سے ضمانت حاصل کی۔ امرحیرت ہے کہ پھربھی سی بی آئی کو مغربی بنگال کی عدالت پر شبہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ عدلیہ کا نظام بہرصورت مستحکم ہونا چاہئے، کسی بھی عدالت کی حکمرانی یہ نہیں ہے کہ وہ بے قصوروں کو تختہ دار پرچڑھا دے اوراسے انصا ف کا نام دے دیا جائے، بلکہ عدالت کی فتح اس وقت ہوگی جب کہ ہرین ادھیکاری کے اصلی قاتل کوسزا دی جائے۔ مولانا محمود اسعد مدنی نے کہا کہ جمعیۃ علماء ہند نے اپنی کوششوں سے ملک کو طاقت پہنچائی ہے۔ ہمارے ملک کی عظمت اس بات میں ہے کہ ہر شخص تک انصاف کی رسائی ہو۔

Also Read