سکاٹ لینڈ کے پاکستانی نژاد وزیر اعظم (فرسٹ منسٹر) حمزہ یوسف پیر کو اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے ہیں۔فرانسیسی خبررساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق گذشتہ ہفتے سکاٹش پارلیمنٹ میں سکاٹش گرینز کے ساتھ ایس این پی کے اقتدار کی تقسیم کے معاہدے کو غیر رسمی طور پر ختم کرنے کے بعد سے انہیں مستعفی ہونے کے مطالبے کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق 39 سالہ سیاست دان نے کہا کہ وہ اسکاٹش نیشنل پارٹی کے سربراہ کے عہدے سے بھی دستبردار ہو جائیں گے لیکن جب تک ان کا جانشین نہیں مل جاتا وہ اس پوزیشن پر رہیں گے۔
حمزہ یوسف نے اسکاٹ لینڈ کے گرینز کے ساتھ اتحاد کے معاہدے کو ختم کرنے کی وجہ سے ایک ہفتے تک ہونے والی افراتفری کے بعد پیر کو سربراہ کے عہدے سے استعفیٰ دیا ہے۔ اس کے بعد وہ اس ہفتے کے آخر میں ان کے خلاف متوقع عدم اعتماد کے ووٹ کے لیے حمایت حاصل کرنے میں بھی ناکام رہے ہیں۔ حمزہ یوسف کی حکومت نے اپنے اتحادی کو ناراض کرتے ہوئے خالص صفر کاربن کے اخراج میں منتقلی کے اہداف کو ترک کر دیا تھا۔ اس کے بعد اپوزیشن اسکاٹش کنزرویٹو نے یوسف پر عدم اعتماد کے ووٹ کی تحریک پیش کر دی۔ یہ عدم اعتماد کا ووٹ امکانی طور پر بدھ کے روز ہو سکتا ہے۔
سکاٹش لیبر نے ان کی حکومت پر ایک اور عدم اعتماد کا ووٹ درج کرایا ہے۔ اس صورت حال میں حمزہ یوسف کے جیتنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ ٹوریز، لیبر اور لبرل ڈیموکریٹس سبھی ان کے خلاف ووٹ دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔اسکاٹ لینڈ میں لیبر پارٹی کی بحالی نے برطانیہ کے وزیر اعظم رشی سنک کی کنزرویٹو پارٹی کو درپیش چیلنج میں اضافہ کر دیا ہے، جو برطانیہ بھر میں رائے عامہ کے جائزوں میں لیبر پارٹی سے بہت پیچھے ہے۔اسکاٹ لینڈ کی پارلیمنٹ کے پاس نئے وزیر کا انتخاب کرنے کے لیے 28 دن ہیں ، جہاں ایس این پی کے سابق رہنما جان سوینی اور حمزہ یوسف کی سابق قیادت کی حریف کیٹ فوربس کو ممکنہ جانشین کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
اگر اسکاٹش نیشنل پارٹی پارلیمنٹ میں حمایت حاصل کرنے کے لیے کوئی نیا لیڈر نہیں ڈھونڈ پاتی ہے تو اسکاٹ لینڈ میں الیکشن کرائے جائیں گے۔حمزہ یوسف نےمارچ 2023 میں اسکاٹ لینڈ کے فرسٹ منسٹر کا عہدہ سنبھالا تھا، حمزہ یوسف اسکاٹ لینڈ کے فرسٹ منسٹر کے عہدے تک پہنچنے والے پہلے پاکستان نژاد اسکاٹش تھے۔فرسٹ منسٹربننےسےقبل حمزہ یوسف ہیلتھ اور جسٹس منسٹرکےعہدوں پر بھی تعینات رہے۔
خیال رہے کہ حمزہ یوسف کو اس وقت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا جب گذشتہ ہفتے انھوں نے سکاٹش نیشنل پارٹی (ایس این پی) اور سکاٹش گرینز کے حکومتی اتحاد کا خاتمہ کر دیا تھا۔ حمزہ یوسف کو اس وقت حکومت میں اپنے سابق شراکت داروں کی طرف سے شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑا تھا جب انھوں نے سکاٹش گرینز کے ساتھ ’بوٹ ہاؤس ایگریمنٹ‘ کو اچانک ختم کر دیا۔ انھیں عدم اعتماد کی دو تحاریک کا سامنا تھا ایک تحریک سکاٹش کنزرویٹو کی طرف سے بطور وزیرِِ اعظم کے طور ان کے خلاف پیش کی گئی تھی جبکہ سکاٹش لیبر کی جانب سے سے پیش کی گئی تحریک کی کامیابی کے نتیجے میں ان کی پوری حکومت کو مستعفی ہونا پڑ سکتا تھا۔ حمزہ یوسف کا کہنا تھا کہ ’میں آپ کو بتا نہیں سکتا کہ میرے لیے اس ملک کا وزیرِ اعظم بننا کتنے فخر کی بات تھی جس سے میں بہت محبت کرتا ہوں، اسی ملک میں اپنے بچوں کی پرورش کر رہا ہوں اور یہی وہ ملک ہے جسے میں اپنا گھر کہوں گا۔‘
بھارت ایکسپریس۔