Babri Masjid demolition case
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ (اے آئی ایم پی ایل بی) نے کہا ہے کہ وہ بابری مسجد انہدام کیس کے ملزمین کو بری کئے جانے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرے گی۔ سی بی آئی کی خصوصی عدالت نے 2020 میں بابری مسجد انہدام کیس میں 32 ملزمان کو بری کر دیا تھا۔
ملزمین میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے سرکردہ رہنما سابق نائب وزیر اعظم لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی، اوما بھارتی اور اتر پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ کلیان سنگھ شامل تھے۔
6 دسمبر 1992 کو ایودھیا میں ہزاروں ہندو کار سیوکوں نے بابری مسجد کو منہدم کر دیا تھا۔ ان کا ماننا تھا کہ یہ ایک ہندو مندر کے کھنڈرات پر بنایا گیا تھا جو بھگوان رام کی جائے پیدائش کی نشاندہی کرتا تھا۔
جب مسجد گرائی گئی تو اس زمین کی ملکیت کا مقدمہ پہلے سے چل رہا تھا۔سپریم کورٹ نے 2019 میں ہندوؤں کو زمین دی تھی۔ اب اس زمین پر رام مندر بن رہا ہے۔
اس سال کے شروع میں ایودھیا کے دو باشندوں حاجی محبوب اور سید اخلاق نے الہ آباد ہائی کورٹ کے سامنے نظر ثانی کی درخواست دائر کی تھی۔ ہائی کورٹ کے دو ججوں کی بنچ نے 9 نومبر کو نظرثانی کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اپیل کنندگان کے پاس فیصلے کو چیلنج کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے ۔
اے آئی ایم پی ایل بی کے ایگزیکٹو ممبر اور ترجمان سید قاسم رسول الیاس نے کہا کہ بورڈ نے اب بری ہونے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
رسول نے مزید کہا، “ہم یقینی طور پر سپریم کورٹ سے رجوع کرنے جا رہے ہیں کیونکہ ایودھیا فیصلے میں سپریم کورٹ نے خود تسلیم کیا ہے کہ بابری مسجد کا انہدام ایک مجرمانہ کارروائی تھی ۔ سپریم کورٹ کے پانچ جج جنہوں نے ایودھیا کا تاریخی فیصلہ سنایاتھا,فیصلے میں بنچ نے بابری مسجد کے انہدام کو قانون کی حکمرانی کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا تھا ۔
رسول نے کہا کہ اپیل کنندگان حاجی محبوب اور سید اخلاق سی بی آئی کے گواہ تھے اور ان کے گھروں پر 6 دسمبر 1992 کو حملہ کیا گیا تھا اور ملزمان کےہجوم نے انہیں جلا دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ محبوب اور اخلاق بابری مسجد کے قریب رہتے تھے۔
–بھارت ایکسپریس