Bharat Express

CJI

سپریم کورٹ نے جمعرات (7 مارچ) کو مدھیہ پردیش کے ایک اصول پر سوال اٹھاتے ہوئے مدھیہ پردیش ہائی کورٹ سے پوچھا کہ بینائی سے محروم افراد کو عدالتی خدمات میں شامل ہونے کی اجازت کیوں نہیں دی جاتی؟

سوشل میڈیا کو ٹیکنالوجی کی طرف سے درپیش ایک "عصری چیلنج" کے طور پر پیش کیا گیا اور کہا کہ انہیں بھی میڈیا کی جانچ پڑتال کا سامنا ہے

چیف جسٹس نے جموں کشمیر سے آرٹیکل 370 کی منسوخی کو چیلنج کرنے والی مقدمے کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ جموں و کشمیر سے آئین کے آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے پر سپریم کورٹ کے متفقہ فیصلے پر تنازعہ کو مزید ہوا نہیں دینے چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ججز کسی بھی کیس کا فیصلہ آئین اور قانون کے مطابق کرتے ہیں۔

انصاف کا احساس تب پیدا ہوتا ہے جب ہم اپنے ذہنوں کو ان تصورات سے ہٹ کر کھولنے کے لیے تیار ہوتے ہیں جو معاشرے نے ہمیں سکھایا ہے۔ یہ تب ہوتا ہے جب ہمارا دماغ کھلا ہو۔ انہوں نے سوال کیا کہ جب لوگ اپنے گھروں میں نوکروں کو ملازمت دیتے ہیں تو کیا قانون اس شخص کو کارپوریٹ ملازم کی طرح فوائد دیتا ہے؟

خط میں کہا گیا ہے کہ تحقیقات شروع کرنے میں چھ ماہ اور ایک ہزار ای میلز لگ گئے اور مجوزہ تحقیقات بھی محض ایک ڈھونگ ہے۔ شکایت کنندہ نے دعویٰ کیا ’’تفتیش میں گواہ ڈسٹرکٹ جج کے فوری طور پر ماتحت ہیں۔ کمیٹی کیسے توقع کرتی ہے کہ گواہ اپنے باس کے خلاف گواہی دیں گے؟ یہ میری سمجھ سے بالاتر ہے۔

سی جے آئی چندرچوڑنے کہا کہ یہ شہریوں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچاتا ہے اور ملک میں ہماری عدالت کی اچھی شبیہ نہیں دکھاتا ہے۔عدالت نے نوٹ کیا کہ ستمبر اکتوبر کے مہینے میں وکلاء کی جانب سے 3,688 التواء کی پرچیاں جاری کی گئیں۔ بنچ نے نوٹ کیا کہ آج 178 ملتوی پرچیاں تھیں۔

ایڈوکیٹ  نیڈومپارا نے کہا کہ وہ آئینی بنچ کے معاملات کی سماعت کرنے والی عدالت کے خلاف نہیں ہیں، لیکن ان کا اعتراض عدالت میں عوامی پالیسی کے معاملات کو عوام کو سنے بغیر سننے پر ہے۔ انہوں نے کہا کہ عوام کی بات نہیں سنی جاتی۔

مرکز نے مشورہ دیا ہے کہ جب یہ بہت ضروری ہو، تبھی عدالت کسی افسر کو ذاتی طور پر حاضر ہونے کو کہے۔ اس دوران اس کے لباس پر غیر ضروری تبصرہ نہیں کرنا چاہیے۔مرکزی حکومت یہ بھی چاہتی ہے کہ کسی افسر کے خلاف توہین کا مقدمہ ان احکامات کی عدم تعمیل پر ہونا چاہیے، جن پر عمل کرنا اس کے لیے ممکن تھا۔

چیف جسٹس چندر چوڑ نے کہا، "عدالتی نظام کی طاقت انصاف فراہم کرنا ہے، اگر کسی شخص کو من مانی گرفتاری، انہدام کی دھمکی، جائیدادوں کی غیر قانونی ضبطی کا نشانہ بنایا جاتا ہے، تو ایسے شخص سپریم کورٹ کے ججوں سے ہمت  حاصل کرنی چاہیے۔

ریٹائرڈ ججوں کی رائے  حکم کے پابند نہیں ہے۔ اگر آپ کسی ساتھی کا حوالہ دیتے ہیں، تو آپ کو موجودہ جج ساتھی کا حوالہ دینا ہوگا۔ ایک بار جب وہ جج کی کرسی سے سبکدوش ہوجاتے ہیں ،تب ان کی ذاتی رائے ہوتی ہے، اور سابق ججز کی ذاتی رائے یا تبصرہ کسی حکم کے پابند نہیں ہوتا۔