Bharat Express

Chirag Paswan

نتیش کمار کی این ڈی اے میں شمولیت کے بعد  سے بحث ہے کہ چراغ پاسوان این ڈی اے میں مطمئن نہیں ہیں۔ ساتھ ہی نتیش کمار بھی این ڈی اے میں چراغ پاسوان کو زیادہ اہمیت دینے کے حق میں نہیں ہیں۔حالانکہ چراغ پاسوان خود کو رام ولاس پاسوان کا حقیقی جانشین مانتے ہیں۔

بہارمیں اکثریت حاصل کرنے کے بعد لوک سبھا کے الیکشن کی تیاریاں تیز ہوچکی ہیں۔ بی جے پی اس بار 20 لوک سبھا سیٹوں پرالیکشن لڑے گی۔ وہیں جے ڈی یو کو 12 سیٹوں پر اکتفا کرنا پڑے گا۔

آئندہ لوک سبھا الیکشن میں بی جے پی-جے ڈی یو بہارمیں برابر برابر سیٹوں پرمیدان میں اترسکتی ہیں۔ 6 سیٹوں کو چراغ پاسوان، پشوپتی پارس، اوپیندر کشواہا اور جیتن رام مانجھی میں تقسیم کی جائے گی۔

بہار حکومت کی طرف سے 2 اکتوبر کو جاری کی گئی ذات مردم شماری کی رپورٹ پر سوال اٹھاتے ہوئے چراغ نے کہا کہ پوری مردم شماری غلط ہے۔ ہم یہ پہلے سے کہہ رہے ہیں کیونکہ بہار میں ہم سے زیادہ کوئی نہیں گھومتا۔ ہم ہمیشہ بہار کے ہر گاؤں میں گھومتے رہتے ہیں۔

لوک جن شکتی پارٹی رام ولاس کے ایم پی چراغ پاسوان نے اتوار کے روز بیان دیا کہ جے ڈی یو میں سب کچھ ٹھیک نہیں چل رہا ہے۔ جے ڈی یو کے کئی لیڈر، ایم پی اور ایم ایل اے ہمارے ساتھ رابطے میں ہیں۔

چراغ پاسوان ناشتے کے تقسیم کے دوران کہہ رہے تھے کہ اس الیکٹرانک مال کا افتتاح 'بہار فرسٹ-بہاری فرسٹ' کو ذہن میں رکھتے ہوئے کیا جا رہا ہے۔ بتا دیں کہ اسی دوران ناشتے کو لے کر چراغ پاسوان کے پروگرام میں لوگوں کی بھیڑ نے ہنگامہ کھڑا کر دیا۔

بائیس جولائی کولائی کو مرکزی وزیر پشوپتی کمار پارس نے حاجی پور سیٹ پر اپنا دعویٰ پیش کیا اور کہا کہ وہ اگلے لوک سبھا انتخابات اپنے آنجہانی بھائی رام ولاس پاسوان کے پارلیمانی حلقہ سے لڑیں گے۔ اس سے پہلے دونوں لیڈر این ڈی اے میٹنگ میں شریک ہوئے تھے۔

پارس نے ان خبروں کو بھی مسترد کر دیا کہ چراغ کے ساتھ جاری تعطل کو ختم کرنے کے لیے راجیہ سبھا کے راستے پارلیمنٹ جا سکتے ہیں یا پھر گورنر بن سکتے ہیں۔

چراغ پاسوان کا این ڈی اے میں شامل ہونا بی جے پی کے لیے کافی فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے، کیونکہ سی ووٹر نے بہار میں سیاسی مساوات پر رائے عامہ جاننے کے لیے ایک سروے کرایا تھا، جس میں 4 ہزار سے زائد لوگوں سے بات کی گئی تھی۔

وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے خطاب کے دوران کہا کہ جب ہم اپوزیشن میں تھے تب بھی ہم نے ہمیشہ مثبت سیاست کی ہے۔ اپوزیشن میں ہم نے اس وقت کی حکومتوں کے گھوٹالے سامنے لائے لیکن عوام کے مینڈیٹ کی کبھی توہین نہیں کی۔ ہم نے حکمرانوں کے خلاف کبھی بیرونی طاقتوں کی مدد نہیں لی۔