Bharat Express

Babri masjid

اے آئی ایم آئی ایم لیڈر نے کہا کہ یہ یقینی طور پر سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے۔ یہ ٹائٹل سوٹ کیس تھا۔ عدالت نے عقیدے کی بنیاد پر کہا کہ ہم یہ زمین مسلمانوں کو نہیں دے سکتے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا کہ مندر کو گرا کر مسجد نہیں بنائی گئی۔

شنکرآچاریہ سوامی اویمکتیشورا نند نے دعویٰ کیا ہے کہ سنی وقف بورڈ نے بابری مسجد پراپنا حق چھوڑنے کا حلف نامہ عدالت میں دیا تھا۔ اس کے بعد ایودھیا تنازعہ کا حل عدالت کے باہر ہوا۔

اسد الدین اویسی نے ایکس پر ایک ویڈیو کے ذریعے کہا تھا کہ وہ اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے۔ اس دوران انہوں نے لوگوں کو مشورہ دیا کہ وہ پی ایم مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ سے نہ ڈریں۔ اس نے کہا کہ ہم صرف اسی سے ڈرتے ہیں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ،اللہ کے سوا ہم کسی اور سے نہیں ڈرتے۔

ایودھیا میں رام مندر کے افتتاح سے متعلق زوروشور سے تیاریاں چل رہی ہیں اور رام بھکتوں میں جوش کا ماحول ہے۔ اس درمیان رام مندر سے متعلق سوشل میڈیا پربڑا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔

سرسنگھ چالک نے کہا کہ دنیا کی بیشتر ثقافتیں وقت کے ساتھ ساتھ معدوم ہو گئیں لیکن ہندو ثقافت ہر طرح کے اتار چڑھاؤ کا سامنا کرنے کے باوجود اپنا وجود برقرار رکھنے میں کامیاب رہی ہے۔ آج بھی ہندوستان میں شمال سے جنوب اور مشرق سے مغرب تک ہر شخص کا ماننا ہے کہ ہمیں اس طرح جینا ہے کہ دنیا اسے دیکھ کر جینا سیکھے۔

انہوں نے کہا کہ مدارس اسلام کے قلعے ہیں، اس لیے یہ بہت ضروری ہے کہ مدارس اور مساجد کو آباد رکھا جائے۔اس دوران انہوں نے حکومت پر الزام لگاتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت مساجد کوغیر آباد کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔اویسی نے لوگوں سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے اختلافات کو ایک طرف رکھیں۔

بابری مسجد کے حامی اقبال انصاری نے وزیر اعظم نریندر مودی کے دورے سے پہلے کہا، 'وزیر اعظم یہاں آ رہے ہیں۔ ہم ان کا استقبال بھی پھولوں سے کریں گے۔

بی جے پی لیڈر اور مسجد محمد بن عبداللہ ڈیولپمنٹ کمیٹی کے چیئرمین حاجی عرفات شیخ نے کہا کہ ایودھیا میں نئی ​​مسجد (جو ہندوستان کی سب سے بڑی مسجد ہوگی) میں قرآن کریم کا دنیا کا سب سے بڑا نسخہ بھی ہوگا۔ یہ 21 فٹ اونچا اور 36 فٹ چوڑا ہوگا۔

مختلف سیاسی جماعتوں اورغیرسرکاری تنظیموں کے اراکین نے بدھ کے روزیہاں جنترمنتر کے قریب 6 دسمبر 1992 کو بابری مسجد کے انہدام کی 31 ویں برسی کے موقع پر ایک احتجاجی مارچ کیا۔ تاہم پولیس نے مارچ کوروک مظاہرین کومنتشرکردیا۔

بابری مسجد کی شہادت کے حادثہ کے بعد ملک کے کئی علاقوں میں فرقہ وارانہ تشدد بھڑک گیا تھا، جن میں جان ومال کا زبردست نقصان ہوا تھا۔