Bharat Express

ASI Survey

عدالت نے 29 نومبر تک اس معاملے میں رپورٹ طلب کر لی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ  ایڈوکیٹ کمیشن کی ٹیم نے پولیس اور انتظامی حکام کی موجودگی میں مسجد کے اندر سروے کیاہے۔ پورے کمپلیکس کی ویڈیو گرافی اور فوٹو گرافی کی گئی ہے۔

سپریم کورٹ نے ڈیفنس کالونی ویلفیئر ایسوسی ایشن (DCWA) کے ذریعہ دہلی کے تاریخی لودی دور کے مقبرے 'گمٹی شیخ علی' پر قبضے پر سخت تبصرہ کیا۔

عدالت اس معاملے میں اگلی سماعت 11 دسمبر کو کرے گی۔ ہائی کورٹ نے اے ایس آئی سے یہ بھی واضح کرنے کو کہا کہ جامع مسجد اب تک اے ایس آئی کے ماتحت کیوں نہیں ہے۔

سال 1991 میں، ہریہر پانڈے، سومناتھ ویاس اور رام رنگ شرما کی جانب سے گیانواپی مسجد کے مالکانہ حقوق حاصل کرنے کے لیے درخواست دائر کی گئی تھی۔ تقریباً دو دہائیوں تک جاری رہنے والی سماعت کے بعد، ہندو فریق کی طرف سے وارانسی کی سول جج سینئر ڈویژن فاسٹ ٹریک کورٹ میں دو مطالبات رکھے گئے تھے۔

راج کمار پٹیل کا کہنا ہے کہ ’مرکزی مقبرے کے اندر نمی دیکھی گئی ہے۔ گنبد میں لگے پتھروں میں شاید ایک باریک دراڑ ہو جس کی وجہ سے پانی رس رہا ہے۔انہوں نے بتایا کہ جس جگہ پانی کے قطرے گر رہے ہیں اس کا معائنہ کیا جا رہا ہے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ پانی مسلسل ٹپک رہا یا وقفے وقفے سے۔

مدھیہ پردیش ہائی کورٹ میں متنازعہ کمال مولا مسجد-بھوج شالا پر اے ایس آئی کے سائنسی سروے رپورٹ پیش کی گی ہے۔ کئی میڈیا رپورٹس میں اے ایس آئی کی رپورٹ دیکھنے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔

عرضی ایم سی مہتا بمقابلہ یونین آف انڈیا کیس میں دائر کی گئی تھی، جو 1984 سے زیر التوا رٹ پٹیشن ہے، جس میں عدالت وقتاً فوقتاً ماحولیاتی آلودگی سے نمٹنے کے لیے مختلف ہدایات جاری کرتی رہی ہے۔

ہائی کورٹ نے بھوج شالہ تنازعہ کیس کی اگلی سماعت کے لیے پہلے ہی 29 اپریل کی تاریخ مقرر کر دی ہے۔ اے ایس آئی کی تازہ ترین درخواست پر بھی اس تاریخ کو سماعت کی جا سکتی ہے۔

مسلم کمیونٹی کے ایک سرکردہ رکن عبدالصمد کا کہنا ہے کہ سروے پہلے ہی کرایا جا چکا ہے اس لیے اسے دوبارہ کرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ عبدالصمد نے بینکوئٹ ہال میں چھیڑ چھاڑ کا الزام لگایا ہے۔ عبدالصمد کا کہنا ہے کہ چونکہ میری طبیعت ناساز ہے اس لیے سروے روکا جا سکتا تھا۔

ہندو شکتی دل کے قومی صدر سمرن گپتا نے درگاہ کے بارے میں مبینہ طور پر متنازعہ بیان دیتے ہوئے حال ہی میں ضلع انتظامیہ کو ایک میمورنڈم پیش کیا تھا جس میں آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا (اے ایس آئی) سے اس کے سروے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ بعد میں مسلم کمیونٹی نے ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی تھی۔