نئی دہلی: آندھراپردیش کے شہرکڈپامیں کل لاکھوں فرزندان توحیدسے خطاب کرتے ہوئے جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا ارشدمدنی نے مجوزہ وقف ترمیمی بل کو مکمل مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ کہاں کاانصاف ہے کہ چیزہماری، رکھوالی کوئی اورکرے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے ان تمام خامیوں کی وضاحت کرتے ہوئے جو اس بل میں موجودہیں ۔ مولانا ارشد مدنی نے کہاکہ آج یہاں سے اٹھنے والی آوازایوان اقتدارسے ٹکرائے گی اوریہ بتادے گی کہ مسلمان وقف ترمیمی بل کو کسی بھی قیمت پر قبول نہیں کرسکتے کیونکہ یہ ہمارا مذہبی معاملہ ہے اوراس میں ہم کسی اورکی مداخلت برداشت نہیں کرسکتے ، مولانا مدنی نے کہا کہ ہم نے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے ساتھ میٹنگ میں تمام ممبروں کی موجودگی میں یہی بات کہی ہے کہ اس بل میں ایک دونہیں لاتعدادخامیاں ہیں چنانچہ ہم ایسے کسی بل کو قبول نہیں کرسکتے جووقف کی حیثیت اورواقف کی منشاکوہی بدل دے ۔
،جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا ارشدمدنی نے آگے کہاکہ جمعیۃعلماء ہند کوئی سیاسی جماعت نہیں ایک خالص مذہبی جماعت ہے اقتدارپر کون ہے، کون آتاہے، کون جاتاہے، کون الیکشن لڑتاہے، کون کامیاب ہوتاہے، کسے ناکامی ملتی ہے، جمعیۃعلماء ہند کی آزادی کے بعد سے اس میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ہمیں ملک سے محبت ہے ،یہ ملک ہماراہے، ہمارے آباواجداد ہزاروں سال سے یہاں رہتے آئے ہیں، ہم ملک میں امن وامان بھائی چارہ اورایک دوسرے کے ساتھ پیارومحبت سے رہنے کو ترجیح دیتے ہیں، کیونکہ ہمارایقین ہے کہ جب تک پیارومحبت کی فضاقائم رہے گی یہ ملک چلے گااورآگے بڑھے گالیکن اگر اس باہمی پیارومحبت کو آگ لگائی گئی تویہ ملک تباہ وبربادہوجائے گا، انہوں نے کہا کہ مسلمان اپنے ملک کاوفادارہے وہ امن وامان قائم رکھنا چاہتاہے آزادی سے پہلے یابعد میں کڈپامیں جمعیۃعلماء ہند کا کبھی کوئی جلسہ نہیں ہوا،ہم نے دہلی کے اجلاس میں یہ اعلان کیاتھا کہ کڈپاکے اجلاس میں پانچ لاکھ لوگ جمع ہونگے ۔ ہمیں یہ دیکھ کر بے پناہ خوشی ہورہی ہے کہ آپ نے اللہ فضل سے ہماری بات کو سچ کردکھایا۔آج کے جلسہ میں پانچ لاکھ سے زیادہ لوگ موجودہیں، یہ وسیع وعریض میدان چھوٹاپڑگیاہے ، آپ کا اتنی بڑی تعدادمیں یہاں جمع ہونا یہ بتاتاہے کہ آپ کو ملک میں اس وقت جو کچھ ہورہاہے اس کولے کر کس قدرتشویش اوراندیشہ ہے۔انہوں نے مزید کہاکہ ہمارامقصدبھیڑجمع کرنا نہیں تھا بلکہ اس صوبہ کے صاحبان اقتدارکو یہ دکھاناتھا کہ آپ جہاں کے حکمراں ہیں وہاں کا مسلمان کیا چاہتاہے؟
مولانا مدنی نے کہا کہ مرکزمیں جوحکومت وقف ترمیمی بل لارہی ہے اور اب یکساں سول کوڈلانے کا نعرہ بلندکررہی ہے وہ اپنے پیروں پر نہیں دوبیساکھیوں پر کھڑی ہے، ان میں سے ایک بیساکھی نتیش کمارنے دے رکھی ہے اوردوسری چندرابابونائیڈونے۔ آج کے اس تاریخی اجلاس کے توسط سے ہم ان دونوں پارٹیوں کو یہ باورکرادینا چاہتے ہیں کہ اس وقت سب سے بڑاخطرہ ملک کے سیکولرآئین کولاحق ہے ، چنانچہ اس کا تحفظ ہم سب کی ذمہ داری ہے اس لئے کہ آئین بچے گاتوہی ملک بچے گااورملک بچے گاتوہم سب بچیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ آئین کے نفاذکے 75سال مکمل ہونے پر پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اس پر مباحثہ ہورہاہے بظاہر یہ ایک اچھی علامت ہے لیکن بنیادی سوال تویہی ہے کہ کیا آئین کے رہنمااصولوں پر ایمانداری سے عمل ہورہاہے ؟ ہر گزنہیں ، المیہ یہی ہے کہ آئین کے قصیدے توپڑھے جاتے ہیں اس کے نام پر حلف بھی اٹھائی جاتی ہے لیکن آئین کا قصیدے پڑھنے والے اسے اپنے کرداروعمل میں نہیں اتارتے۔ چنانچہ ہم آئے دن آئین کی پامالی کا افسوسناک نظارہ کھلی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر آئین کے اصولوں پر عمل کیا جاتاتوآج ہمیں تحفظ آئین ہند اجلاس منعقدکرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ ملک کا سیکولرآئین جمعیۃعلماء ہند کے ان کابرین کی جدوجہدکا نتیجہ ہے جنہوں نے ملک کو غلامی کی لعنت سے آزادکرانے کے لئے قدم قدم پرقربانیاں دی تھیں ، چنانچہ آج جب آئین کو پامال اوررسواکیاجارہاہے تو اس کے تحفظ کے لئے جمعیۃعلماء ہند میدان عمل میں سرگرم ہوگئی،مولانامدنی نے ان تمام مسائل کا احاطہ کیا جن کا سامناآج ملت کو ہے ، وقف ترمیمی بل کی خامیوں کو سلسلہ واراجاگرکرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کہا تویہ جاتاہے کہ یہ بل ہم اوقاف کے تحفظ کے لئے لارہے ہیں لیکن اس میں کی گئی خطرناک ترمیمات سے یہ بات ثابت ہورہی کہ یہ بل وقف کو ہڑپنے اورمسلمانوں کو ا ن کے آباء و اجداد کے قیمتی اثاثہ سے محروم کردینے کے لئے لایاجارہاہے ، ہم یہ بات یہاں کی صوبائی حکومت کے کانوں تک پہنچادینا چاہتے ہیں کہ اگر آئین کو بچانا ہے تواس بل کو مستردکرنا ہوگا۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ آج یہاں سے جو آوازاٹھی ہے وہ اس صوبہ اورملک ہی میں نہیں پوری دنیامیں سنی جارہی ہے ۔اس لئے ہم صاحبان اقتدارکو یہ بھی بتادینا چاہتے ہیں کہ مسلمان کسی بھی قیمت پر وقف ترمیمی بل کی تائید نہیں کرسکتا چوں کہ یہ ہمارا مذہبی معاملہ ہے۔ فلک شگاف نعروں کی گونج میں مولانا مدنی نے کہا کہ ہم اس ملک میں زندہ ہیں، یہیں رہیں گے اوریہیں کی مٹی میں دفن ہوں گے۔ ہمارامذہب مٹ جانے والامذہب نہیں ہے۔ تاریخ شاہدہے کہ اسلام کو مٹانے کااعلان کرنے والے خودمٹ گئے اوراسلام زندہ رہا اور قیامت تک زندہ رہے گا۔
اس موقع پر جمعیۃعلماء آندھراپردیش کے ذمہ داران کی طرف سے مولانا مدنی کی خدمت میں پانچ لاکھ دستخط پر مشتمل ایک مسودہ بھی پیش کیا گیا جسے عنقریب وزیراعلیٰ چندرابابونائیڈوکو بھی پیش کیاجائے گا، یہ محض دستخط کا ایک مسودہ نہیں بلکہ آندھراپردیش کے صرف تین ضلعوں کے مسلمانوں کی وقف ترمیمی بل کے خلاف احتجاج کی آوازہے ، اہم بات یہ ہے کہ اس جلسہ نے کڈپامیں مسلک کی دیواربھی توڑدی۔ جلسہ کو تاریخی بنانے کے لئے یہاں کے مسلمانوں نے مسلک سے اوپراٹھ کر محنت اورکوشش کی یہاں تک کہ تمام مسلک کے لوگوں نے باہر سے آنے والوں کے لئے نہ صرف اپنی مسجدوں کے دروازے کھول دیئے بلکہ ان کے کھانے پینے کا بھی انتظام کیا۔ مولانا مدنی نے کڈپاکے مسلمانوں کے اس جذبہ کی ستائش کی اورکہاکہ آج کے حالات میں اسی طرح کے اتحادکی ضرورت ہے اورایساکرکے کڈپاکے مسلمانوں نے پورے ملک کے مسلمانوں کو ایک نئی راہ دکھائی ہے ۔
جلسہ کی نظامت کے فرائض جمعیۃعلماء ہند کے جنرل سکریٹری مفتی معصوم ثاقب نے بحسن وخوبی انجام دیئے ، اس جلسہ کو منعقد کرنے اورتاریخی بنانے میں بھی انہوں نے ایک اہم کرداراداکیا۔اس کے علاوہ آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈکے صدرمولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے بھی اجلاس کو خطاب کیا۔انہوں نے سیکولردستورسازی میں مسلمانوں کے کردارکو اجاگرکیا، اس کے علاوہ جمعیۃعلماء ہند تمل ناڈوکے صدرمفتی سبیل احمدوجنرل سکریٹری حافظ شریف، جمعیۃعلماآندھراپریش وتلنگانہ کے صدرمفتی غیاث الدین رحمانی ،جمعیۃعلماء کرناٹک کے صدرمولاناعبدالرحیم رشیدی اورجنرل سکریٹری محب اللہ امین ودیگرسماجی شخصیات موجود تھیں۔
بھارت ایکسپریس۔