مدارس اسلامیہ کے تحفظ پر گروپ ڈسکشن
اتر پردیش حکومت، مدارس کی ایک معتدب بہ تعداد کو نشان زد کرکے ان کے گرد گھیرا تنگ کررہی ہے جس کی وجہ سے خوف و ہراس کا ماحول ہے ۔ اس صورت حال کے بعد مدارس کے تحفظ اور انہیں بچانے کے لیے لائحہ عمل تیار کرنا وقت کی ایک اہم ضرورت بن گیا ہے ۔ اسی مقصد کے تحت مرکزی تعلیمی بورڈ نے ایک گروپ ڈسکشن کا اہتمام کیا جس میں مدارس کے تحفظ کے لیے سیاسی اور قانونی پہلوؤں پر غور کیا گیا۔ اس ڈسکشن میں مولانا محمد طاہر مدنی، سابق مہتمم جامعتہ الفلاح ، بلریا گنج اعظم گڑھ، ڈاکٹر سلمان اسعد، چیئرمین ، جامعتہ الصالحات رام پور ،جناب حسیب احمد، سابق سیول سروس افسراور سید تنویر احمد، سیکریٹری مرکزی تعلیمی بورڈ، شامل تھے۔ڈسکشن کے دوران مدارس کی موجودہ حالت اور ان کے درپیش چیلنجز پر گفتگو ہوئی، جن کا خلاصہ درج ذیل ہے:
1 :سماجی اور سیاسی روابط: شرکاء نے مدارس کے لیے سماج کی بااثر شخصیات، سیاسی رہنماؤں اور انتظامیہ کے ساتھ مضبوط روابط قائم کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ یہ روابط مدارس کی خدمات اور کارکردگی کو اجاگر کرنے میں مددگار ثابت ہوں گے۔اس کے ذریعے برادران وطن کے دانشو طبقہ ، میڈیا اور سرکاری اعلی عہدیداران مدراس کی خدمات سے واقف کرایا جائے، یہ بھی بتایا جائے کہ مدارس میں کیا پڑھایا جاتا ہے ، اور مدارس سے فارغین سماج و ملک کی کس طرح خدمت انجام دے رہے ہیں ۔ مزید ان کے ذہنوں میں موجود اسلام، مسلمانوں اور مدراس کے متعلق جو غلط فہمیاں عام ہو گئی ہیں ان کا ازالہ کیا جائے ۔
2: تعلیمی قوانین کی پاسداری: تعلیمی قوانین کے تحت حتی المقدور دینی مدارس کو رجسٹریشن اور روابط پر عمل آوری کا مشورہ دیا گیا ۔ جماعت دہم تک کسی بھی رجسٹرڈ بورڈ کے تحت مدارس میں عصری علوم کی تعلیم کا انتظام کا مشورہ شامل ہے۔ یہ بھی واضح کیا کہ دینی علوم کے ساتھ ساتھ عصری علوم کا امتزاج بآسانی کیا جا سکتا ہے ۔ مثلاً یوپی بورڈ کے تحت تین زبانیں سائنس ، حساب اور سماجیات کو پڑھانا ممکن ہے اور اکثر مدارس تین زبانیں پڑھاتے ہیں حساب اور سائنس کی تعلیم بھی دی جاتی ہے ۔ سماجیات کو جنرل نالج کے تحت پڑھایا جاتا ہے ، اس لیے طلبا پر کوئی خاص بوجھ نہیں پڑے گا ۔
3: قانونی راستے: دستور ہند کے تحت اقلیتوں کو تعلیمی ادارے قائم کرنے ہیں تو ان کا انتظام و انصرام کرنے کی آزادی حاصل ہے ۔ اگر کوئی حکومت اقلیتوں کے اس حق کو سلب کرنا چاہتی ہے تو وہ حکومت کی جانب سے غیر دستوری عمل ہوگا۔ اس کے لیے سب سے پہلے حکومت میں موجود ذمہ داران سے ملاقاتیں کرکے گفتگو کی جائے اور ان کے ذہنوں کو مدارس کے حوالے سےصاف کیا جائے اور غلط فہمیوں کو دور کیا جائے ۔
حکومت کو مشورہ دیں کہ وہ مدارس کا معروضی جائزہ لیں
4:تعلیمی معیار میں بہتری: مدارس کی تعلیمی معیار کو بلند کرنے کے لیے جدید تعلیمی پیرامیٹرز اپنانے کی ضرورت ہے، جن میں اسکل ڈیولپمنٹ پروگرامز، سائنسی مضامین، اور جدید تدریسی طریقے شامل ہیں۔اسی طرح ٹیچرس کی ٹریننگ، مینیجمنٹ کی ٹریننگ ، طلبہ کے سرپرستوں کی تربیت ، طلبہ کی کونسلنگ بھی اس میں شامل ہیں ۔شرکاء نے اس بات پر اتفاق کیا کہ حکومت، معاشرہ، اور مدارس کے درمیان باہمی تعاون سے ہی مؤثر اصلاحات ممکن ہوں گی۔ انہوں نے مدارس سے متعلق مسائل کے حل اور فیصلہ سازی کے لیے ایک کوآرڈینیشن کمیٹی کے قیام کی تجویز دی۔اجلاس کے اختتام پر یہ بات واضح ہوئی کہ حکومت کو غیر ضروری اور غلط انداز میں مدارس میں مداخلت کرکے خوف و ہراس نہیں پیدا کرنا چاہیے۔ یہ معاشرے کی تعمیر کے لیے فلاحی ادارے ہیں اور ان کے ذریعے ان بچوں کے تعلیم کا انتظام ہو رہا ہے جنہیں حکومت تعلیم فراہم کرنے سے قاصر ہے ۔ یہ مدراس جہاں معاشرے کے تعمیر میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں ۔ وہیں کم زور سماج کے بچوں کی تعلیم و تربیت کا کام کرکے حکومت کے ساتھ تعاون کرنے کا کام کرتے ہیں ۔
بھارت ایکسپریس