تلنگانہ میں فرقہ وارانہ تشدد
حیدرآباد: بدھ کے روز تلنگانہ کے کومارم بھیم آصف آباد ضلع کے جینور قصبے میں ایک قبائلی خاتون کے ساتھ جنسی زیادتی کے بعد فرقہ وارانہ تشدد پھوٹ پڑا۔ مظاہرے کے دوران شرپسندوں نے آتش زنی بھی کی۔ تشدد کے دوران ایک مخصوص کمیونٹی کی دکانوں اور گاڑیوں کو نشانہ بنایا گیا۔ ایک عبادت گاہ میں بھی مبینہ طور پر توڑ پھوڑ کی گئی۔ واقعے کے بعد پولیس نے شہر میں امن برقرار رکھنے کے لیے اضافی نفری بھیج دی۔ تشدد کو روکنے کے لیے سیکورٹی بڑھا دی گئی۔
آپ کو بتا دیں کہ اس سے قبل پولیس نے ایک آٹو رکشہ ڈرائیور کو ایک خاتون سے چھیڑ چھاڑ کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ یہ واقعہ 31 اگست کو اس وقت پیش آیا جب خاتون قریبی گاؤں جانے کے لیے بس اسٹیشن پر کھڑی تھی اور آٹو رکشا میں سوار ہوگئی۔ کچھ فاصلہ طے کرنے کے بعد ملزم نے اس کے ساتھ بدفعلی کی کوشش کی۔ جب متاثرہ نے شور مچانا شروع کیا تو آٹورکشا ڈرائیور نے اس کے سر پر کسی بھاری چیز سے مارا۔ جب وہ بے ہوش ہوئی تو وہ اسے سڑک پر چھوڑ کر بھاگ گیا۔
کچھ راہگیروں کی مدد سے خاتون کو عادل آباد کے RIMS اسپتال لے جایا گیا۔ جب خاتون کو 2 ستمبر کو ہوش آیا تو اس نے اپنے گھر والوں کو واقعہ کے بارے میں بتایا۔ اس نے مقامی پولیس میں شکایت درج کرائی اور ملزم کو گرفتار کر لیا گیا۔
خبر پھیلتے ہی شہر میں لوگوں نے احتجاج شروع کر دیا اور ملزم کو سزائے موت دینے کا مطالبہ کیا۔ کچھ مظاہرین نے تشدد کا سہارا لیا اور ایک مخصوص کمیونٹی کی املاک کو نشانہ بنایا۔
دوسری جانب تشدد کے بارے میں جاننے کے بعد رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی نے پولیس کے ڈائریکٹر جنرل جتیندر سے بات کی اور مطالبہ کیا کہ پولیس قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے والوں کے ساتھ سختی سے پیش آئے۔ اویسی نے کہا کہ ڈی جی پی نے انہیں یقین دلایا ہے کہ وہ صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور شہر میں اضافی فورس بھیج رہے ہیں۔
اویسی نے امن بنائے رکھنے کی اپیل کی۔ انہوں نے ریاستی حکومت پر زور دیا کہ وہ کسی کو بھی قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہ دے۔ انہوں نے کہا، ’’ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ پولیس کارروائی کرے اور تشدد میں ملوث تمام افراد کو گرفتار کرے۔ قانون کی بالادستی ہونی چاہیے۔‘‘
بھارت ایکسپریس۔