Bharat Express

حادثہ نہیں تبدیلی کی مثال بنے جوشی مٹھ

سوال اٹھتا ہے کہ ترقی کے نام پر ہم جو انہدام کر رہے ہیں، کیا یہ سانحہ واقعی اسی کا نتیجہ ہے؟ اگریہی ناقابل تردید سچائی ہے تو ترقی کی قیمت کیا ہونی چاہئے؟

January 15, 2023

جوشی مٹھ بحران کے دوران گھروں اور دیگر عمارتوں میں شگافیں آگئی ہیں۔

ہمالیہ کی زندگی کافی  حد تک دو سرحدوں سے تعبیر کی جا سکتیٍ ہے۔ ایک طرف تصورات سے بھی آگ ے جاکر دلکش خوبصورتی اور دوسری طرف بڑے سے بڑے خدشات کو پیچھے چھوڑ دینے والی خطرناک جان لیوا مصیبت۔ مندروں کے شہرجوشی مٹھ ان دنوں اس دوسری والی سرحد کے کگار پرکھڑا نظرآرہا ہے۔ جوشی مٹھ میں زمین تیزی سے دھنس رہی ہے، جس کے سبب مکان- دوکان، ہوٹل اورفٹ پاتھ، یہاں تک کہ یہاں کا تاریخی روپ وے بھی دراروں کے دائرے میں ہے اور یہ دائرہ ہرگزرتے دن کے ساتھ چوڑا ہوتا جا رہا ہے۔ اکتوبر، 2021 میں یہاں کچھ گھروں میں پہلی باریہ دراریں دکھائی دی تھیں۔ صرف سوا سال میں آج جوشی مٹھ کے سبھی 9 وارڈوں میں سات سو سے زیادہ گھروں کے فرش، چھت اوردیواروں میں بڑی یا چھوٹی دراریں آگئی ہیں۔ کئی گھروں میں بیم تک اکھڑگئے ہیں۔ اسے دیکھتے ہوئے متاثرہ خاندانوں کوعارضی محفوظ پناہ گاہ اور معاوضہ ضرور دے دیا گیا ہے، لیکن اس کی مناسبت سے متعلق خود انتظامیہ ہی مطمئن نہیں ہے اور اس پرآئے دن نئی نئی وضاحت دی جا رہی ہے۔

جوشی مٹھ میں جس خطرے کو دہائیوں پہلے بھانپ لیا گیا تھا، اس پراب جاکر پورے ملک میں بحث ہو رہی ہے اور کچھ معنی خیزباتیں سنائی دے رہی ہے۔ اسرو کی سیٹلائٹ تصاویر دکھا رہی ہیں کہ صرف 12 دنوں میں جوشی مٹھ 5.4 سینٹی میٹردھنس گیا ہے۔ اپریل اورنومبر2022 کے درمیان زمین کا دھنسنا سست تھا، لیکن اس سال 27 دسمبر، 2022 سے 8 جنوری کے درمیان زمین دھنسنے کی رفتاراچانک سے بڑھی۔ آخراس کی وجہ کیا ہے؟ ماحولیاتی ماہرین این ٹی پی سی کے تپوون وشنوگڈ ہائیڈرو الیکٹرک پروجیکٹ کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں۔ سال 2009 میں ٹنل بورنگ مشین منصوبے کی ٹنل میں پھنسنے کی وجہ سے پانی کا رساؤ ہوا۔ پانی کے دباؤ نے چٹانوں میں نئی ​​شگافیں بنیں اورپرانی شگافیں چوڑی ہوگئیں۔ اس کی وجہ سے ٹنل کے اندر سے باہرکی طرف بھی پانی کا رساؤ ہوا۔ فروری 2021 کے بارشی حادثے نے حالات کو مزید خراب کردیا۔ ٹنل میں ملبے سمیت بے حساب پانی داخل ہونے کی وجہ سے چٹانوں میں نئی ​​شگافیں پڑگئیں اورپرانی شگافیں مزید چوڑی ہوگئیں۔ ماہرین سرنگ کی تعمیرمیں کنٹرولڈ دھماکے کے دعوؤں کو بھی کھوکھلا بتا رہے ہیں۔

ممکن ہے کہ تپوون پروجیکٹ کی تعمیرجوشی مٹھ پرمنڈلا رہے بحران کے لیے ذمہ دارہو، لیکن پھربھی یہ وجہ عارضی معلوم ہوتی ہے۔ اپنے ہی پیروں پرکلہاڑی مارنے کا یہ سلسلہ دراصل دہائیوں پرانا ہے۔ جوشی مٹھ کا مسئلہ جہالت، بے حسی اورخراب پالیسیوں کا ایک ایسا میل ہے، جس میں قلیل مدتی منافع کے لالچ میں پہاڑوں کی نازک زمین اورماحولیات کو ناقابل یقین طریقے سے پامال کیا گیا ہے۔ وہ بھی تب جب ماہرین نے ممکنہ خطرات کے بارے میں بارہا خبردارکیا، لیکن ان وارننگ پرکارروائی کرنے میں حکومتوں کی ناکامی نے آج بحران کو اس بھنورکے سامنے لاکھڑا کیا ہے، جس نے اب جوشی مٹھ کو بری طرح جکڑلیا ہے۔

اس کی پہلی علامت 1976 میں ملنی شروع ہوگئی تھی جب  گڑھوال کے اس وقت کے کمشنرمہیش چندرمشرا کی قیادت میں ہوئی ایک سرکاری تحقیق نے خبردارکیا تھا کہ جوشی مٹھ کسی بھی بستی کے لئے موزوں نہیں ہے کیونکہ ایک تو یہ مورین یعنی گلیشیئرسے آئے ملبے پربسا ہے۔ دوسرا مناسب جل نکاسی سہولیات کی کمی کے سبب وہاں مسلسل لینڈ سلائیڈنگ ہو رہی تھی۔ اس تحقیق میں پورے خطے میں بھاری تعمیراتی کاموں پر پابندی لگانے کی سفارش تھی۔ پھرسال 2001 میں، این آرایس اے سمیت ملک کی تقریباً 12 بڑی سائنسی تنظیموں نے بھی جی آئی ایس تکنیک کے ساتھ تیارکردہ اپنی زونیشن میپنگ رپورٹ میں اس بارے میں خبردارکیا تھا۔ مشرا کمیٹی اور این آرایس اے کی رپورٹ میں جوشی مٹھ جیسے شہروں اور ان کے مکینوں کو بچانے کے لئے اپنائے جانے والے حفاظتی اقدامات کے بارے میں کافی مناسب تجاویزہیں، لیکن لگتا نہیں کہ ان پرتوجہ دی گئی۔

گزشتہ 20 سالوں میں جوشی مٹھ پردو درجن سے زیادہ تحقیق کی گئی ہیں اور ہررپورٹ میں انسانی سرگرمیوں کے بارے میں الرٹ ملتا ہے۔ تقریباً ہررپورٹ میں کثیرالمنزلہ عمارتوں، بجلی کے بڑے منصوبوں اورسرنگوں کی تعمیراوربھاری مشینوں کے استعمال پرفوری پابندی لگانے کا مشورہ ملتا ہے۔ اس کے ساتھ  ہی جوشی مٹھ میں کئی دہائیوں سے کھیتی کے لئے زمین کے نیچے سے بہت سارا پانی نکالا گیا ہے، جس سے ریت اورپتھرنازک ہوگئے ہیں اورمٹی مسلسل اپنی جگہ چھوڑ رہی ہے۔ جوشی مٹھ، بدری ناتھ دھام اورہیم کنڈ صاحب جیسے تیرتھ مقامات کا داخلہ گیٹ بھی ہے۔ اسی لئے جوشی مٹھ کی آبادی بھلے ہی 23 ہزارکی ہو، لیکن یہاں سینکڑوں ہزار تیرتھ  یاتریوں اورسیاحوں کی مسلسل آمد ورفت بنی رہتی ہے، جن کے لئے ایک بڑے بازارسمیت ہوٹل، ریزارٹس، کھانے پینے کے ہوٹلوں کی بھرمار ہوگئی ہے۔ اس سے جوشی مٹھ میں ایک طرح کے عوامی آبادی کا دھماکہ ہوگیا ہے۔ کنیکٹیویٹی میں سدھار کے لئے پکی سڑکوں کا جال اوربنیادی ڈھانچے کی چوطرفہ تعمیر اور تیرتھ یاتریوں کے لئے آسان دہ ہو، لیکن جوشی مٹھ کی صحت کے لئے تو نقصاندہ ہی ہے۔

 انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ریموٹ سینسنگ کا ایک نیا ویڈیو بتاتا ہے کہ خطرہ صرف جوشی مٹھ تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ پوری وادی میں پھیل چکا ہے۔ جوشی مٹھ سے 82 کلومیٹردورکرن پریاگ میں سڑکوں اورگھروں کی دیواروں میں دہائیوں پرانی دراریں بڑی ہونے لگی ہیں۔ ٹہری ضلع میں، باندھ سے متاثرہ بھیلنگنا اوربھاگیرتھی علاقہ کے 16 گاؤں کے ساتھ ساتھ، رشی کیش-گنگوتری ہائی وے پر بنے سرنگ کے اوپرلینڈ سلائیڈنگ سے مٹھیان گاؤں کے کئی مکانوں میں دراریں پڑنے سے وہ رہنے کے لائق نہیں رہے۔ رودرپریاگ ضلع میں گپت کاشی کے قریب سیمی بھیساری گاؤں مکمل طورپرلینڈ سلائیڈنگ کی چپیٹ میں ہے۔ یہ صورتحال کافی عرصے سے ہے، لیکن لگتا ہے کہ ہرجگہ جوشی مٹھ جیسے حالات بننے کا انتظار ہو رہا ہے۔

ویدشاستروں میں پہاڑوں، ندیوں اورجنگلوں کو بھو دہن کہا گیا ہے جو زمین کا توازن برقرار رکھتے ہیں۔ لیکن دنیا میں ہرجگہ قدرتی وسائل کی کھلے عام لوٹ ہو رہی ہے اورجہاں جہاں ایسا ہو رہا ہے، وہاں قدرت کا قہربھی مختلف شکل میں سامنے آ رہا ہے۔ یوایس جیولوجیکل سروے کے مطابق زمین کا دھنسنا اب ایک عالمی مسئلہ بن گیا ہے۔ امریکہ میں ہی 45 ریاستوں میں 17 ہزارمربع میل سے زیادہ علاقے براہ راست اس سے متاثرہیں۔ زلزلے، مٹی کے کٹاؤ جیسے قدرتی واقعات کے ساتھ ساتھ زمین سے پانی، تیل، قدرتی گیس، معدنیات جیسے وسائل نکالنے کی اندھی دوڑبھی اس کی ایک بڑی وجہ ہے۔ دنیا بھرمیں 80 فیصد سے زیادہ لینڈ سلائیڈنگ زمینی پانی کے زیادہ استعمال کی وجہ سے ہوتی ہے۔ لینڈ سلائیڈنگ کی شدت اتنی زیادہ ہے کہ سال 2040 تک دنیا کے 8 فیصد حصہ اور21 فیصد اہم شہروں میں رہنے والے تقریباً 1.2 بلین لوگ اس سے متاثر ہوں گے۔ اس کے زیادہ خطرے کا اندازہ ایشیا میں لگایا گیا ہے جہاں بڑی آبادی لینڈ سلائیڈنگ سے متاثرہوسکتی ہے۔ انڈونیشیا کی راجدھانی جکارتہ آج دنیا کے کسی بھی دیگرشہرکے مقابلے تیزی سے دھنس رہا ہے۔ ممبئی کے حالات بھی کچھ کم دھماکہ خیزنہیں ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم ترقی کے نام پرجو تباہی کررہے ہیں، کیا یہ سانحہ واقعی اسی کا نتیجہ ہیں؟ اگریہ ایک ناقابل تردید سچائی ہے تو پھرترقی کی قیمت کیا ہونی چاہئے؟ ہمارے لالچ کی کیا حد ہو سکتی ہے؟ تیرتھ مقامات کو ازسرنو سجانے میں کچھ برا نہیں، لیکن اس کے لئے مقامی ماحولیات کو داؤں پرلگانا کتنا مناسب ہے؟ کیوں نہ ترقی ایسی ہو جوماحولیات کے موافق ہو؟  کیوں نہ ایسی کوششیں ہوں کہ ترقی اورتباہی نہیں، بلکہ ترقی اوراعتماد ساتھ ساتھ چلیں۔

اس بات سے انکارنہیں کیا جا سکتا کہ ہمارے یہاں ماحولیات کے لحاظ سے حساس مقامات پربھی تعمیراتی کام سائنسدانوں کے ذریعے نہیں بلکہ ٹھیکیدار ہی کراتے ہیں، جن کے لئے اپنا وقت بچانا ماحولیات کو بچانے سے زیادہ ‘قیمتی’ ہوتا ہے۔ بدلے میں، ہمیں ملتے ہیں جوشی مٹھ جیسے مثال، جہاں نقصان کی بھرپائی ناممکن ہو جاتی ہے۔ یہ بھی دھیان رکھنا ہوگا کہ ایک کے بعد ایک تحقیق تب تک مدد نہیں کریں گے، جب تک کہ حکومتیں ان کی سفارشات پر کارروائی شروع نہیں کردیتیں۔ اس لیے اب کسی نئی تحقیق کی نہیں بلکہ سخت کارروائی کی ضرورت ہے تاکہ جوشی مٹھ کسی حادثے کا نہیں، بلکہ ایک بڑی تبدیلی کی مثال بنے۔

-بھارت ایکسپریس