پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف
سال 1947 میں وجود میں آیا پاکستان اس وقت اپنے سب سے برے دور سے گزر رہا ہے۔ اقتصادی دیوالیہ پن کے دہانے پر پہنچ چکا پڑوسی ملک وینٹی لیٹرپرپہنچ گیا ہے۔ مہنگائی جنوری میں 27.55 فیصد تک پہنچ چکی ہے، جو 1975 کے بعد سب سے زیادہ ہے، جس سے زرمبادلہ کے ذخائر3.09 بلین ڈالر رہ گئے ہیں، جس سے صرف دو ہفتے کے لئے امپورٹ ممکن ہوسکے گا۔ یہ 1998 کے بعد سب سے کم ہے۔ پاکستانی روپیہ ایک ڈالر کے مقابلے 276 تک گرگیا ہے، پٹرول کی قیمت 250 روپئے فی لیٹر، آٹے کی قیمت 150 روپئے فی کلو تک پہنچ گئی۔ اس کے علاوہ بجلی کے بحران، خوراک ورسد کے بحران نے حالات کو مزید خراب کر دیا ہے، قرض سُرسا کے منہ کی طرح بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ ملک کے بندرگاہوں پر خوراک ورسد، خام تیل اور سامان کے ہزاروں کنٹینرز اَن لوڈ ہونے کے انتظارمیں پھنسے ہوئے ہیں، لیکن ان کی ادائیگی کے لئے پیسے نہیں ہیں۔
یہ چند اعداد وشمارپاکستان کی حالت کو بیان کرنے کے لئے کافی ہیں۔ پاکستان کی امید آئی ایم ایف یعنی بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے 6.5 بلین ڈالرکے بیل آؤٹ پیکج پرمرکوز ہے، لیکن آئی ایم ایف نے شہباز شریف حکومت کے لئے انتہائی سخت اقدامات کرنے کی شرط رکھی ہے، جسے نافذ کرنے کا مطلب ہوگا کہ عوام کی ناراضگی کا سامنا کرنا پڑے گا اور نہ نافذ کرنے پر پاکستان کا دلدل مزید دھنس جانا۔ آئی ایم ایف نے شہباز شریف سے بجلی کی قیمتوں میں اضافہ اوربجلی پرسبسڈی فوری بند کرنے کو کہا ہے۔ آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ بجلی کے شرح میں اضافہ کیا جائے تاکہ بجلی کمپنیوں کو ان کے واجبات ادا کئے جاسکیں۔ معاشی زبان میں اسے سرکلر ڈیٹ کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ آئی ایم ایف کی شرائط میں مالیاتی خسارے کو کنٹرول کرنا، حکومتی اخراجات کو کم کرنا بھی شامل ہے۔
پاکستان کے کوڑھ میں کھاج والی بات یہ ہے کہ جس دہشت گردی کی اس نے پرورش کی، اب وہی اس کے لئے ناسور بن چکا ہے۔ آئے دن ہونے والے دہشت گردانہ حملوں نے پاکستان کی حالت مزید خراب کر دی ہے۔ یہی نہیں بلکہ پاکستان کو قدرت کی مار بھی جھیلنی پڑی ہے۔ گزشتہ سال پاکستان میں سیلاب نے جس طرح تباہی مچائی اس کی مثال نہیں ملتی۔ ہزاروں جانیں گئیں اور کروڑوں کا نقصان ہوا۔
اس اندھے کنویں سے نکلنے کے لئے شہبازحکومت مدد کی امید میں ہر ممکن دروازے کھٹکھٹا رہی ہے۔ چین نے مدد سے منہ موڑ لیا ہے تو عرب ممالک بھی ہاتھ کھینچتے جا رہے ہیں۔ وہیں برے حالات میں سری لنکا کی مدد کرنے والے ہندوستان کی طرف بھی پاکستان امید بھری نظروں سے دیکھ رہا ہے۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ کیا بھارت روایتی دشمنی بھول کر پاکستان کی مدد کرے گا؟
پاکستان میں بھارت کی سراہنا کی جا رہی ہے۔ ہندوستانی خارجہ پالیسی، جمہوریت اور وزیراعظم مودی کی قیادت کی تعریف حیران کن بات ہے۔ عام لوگ، دانشور، بیوروکریٹس حتیٰ کہ پاکستانی لیڈران بھی بھارت کی مثال دے رہے ہیں۔ پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ بھارت کے ساتھ ماضی میں تین جنگیں لڑنے کے باوجود کچھ حاصل نہیں ہوا۔ کیا یہ بھارت کے تئیں پاکستان کے برے سلوک پر خود احتسابی کا احساس ہے یا کنگالی کی حالت میں پہنچ گیا پاکستان بھارت کے ساتھ نرمی برتنے پر مجبور ہے؟
بھارت نے بھی پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو کو گوا میں ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے اجلاس میں شرکت کی دعوت بھیج کر بڑا پیغام دیا ہے۔ حال ہی میں بلاول بھٹو نے اپنا نام القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن سے جوڑکر بھارت اور خاص طور پر وزیراعظم نریندر مودی کے خلاف جارحانہ بیان دیا تھا۔ بلاول بھٹو کے اس بیان نے بھارت کی سیاست میں ایک طوفان برپا کر دیا تھا۔ پھر بھی بلاول بھٹو کو دعوت نامہ بھیجنا یہ ظاہرکرتا ہے کہ بھارت کی سوچ چند واقعات سے متاثر نہیں ہے۔
پاکستان کے ساتھ تعلقات معمول پرلانے کی کوششوں کے لئے مودی حکومت نے کوششیں کم نہیں کیں۔ پروٹوکول کو توڑتے ہوئے وزیراعظم نریندرمودی دسمبر 2016 میں نوازشریف کے گھر پہنچے تھے، لیکن 2 جنوری 2017 کو بدلے میں پٹھان کوٹ حملہ ملا۔ بھارت نے پاکستان کو اپنی سرزمین پراس واقعہ کی تحقیقات کے لئے ٹیم بھیجنے کی اجازت دی، لیکن تعلقات بہتر ہونے کے بجائے مزید خراب ہوگئے۔ اڑی حملہ، سرجیکل اسٹرائیک، پلوامہ حملہ اور پھر جوابی حملے نے حالات کو کشیدہ کردیا۔ ان سب کے درمیان کرتار پورکاریڈور کی شروعات ہوئی۔ اسے دونوں ممالک کے درمیان خوشگوار تعلقات تلاش کرنے کی کوشش کے طور پر بھی دیکھا گیا۔
پاکستان کے سندھ میں ہنگلاج ماتا مندراوربارمیر کے درمیان ایک دیگرکاریڈورکے امکان کے بارے میں بات چیت ہوئی۔ اس سلسلے میں آئی ایس آئی چیف فیض حامد اورہنوستانی این ایس اے اجیت ڈوبھال کے درمیان ملاقات کی خبریں بھی سامنے آئیں، مگرعمران خان کی بھارت مخالف سیاست نے اس پہل کو پروان نہیں چڑھنے دیا۔ ان سب کے درمیان لداخ میں چین کے رویے کے بعد پاکستان کے ساتھ کشیدہ تعلقات کو کم کرنے کی اسٹریٹجک ضرورت بھی مضبوط ہوگئی ہے۔ حالیہ دنوں میں خود پاکستان نے بھی اپنی فوجی دستے کو ہندوستانی سرحد سے ہٹایا ہے اور فوج کی تعیناتی چین سے متصل سرحد میں کی ہے۔ اس کے گہرے معانی ہیں۔
بحران کی گھڑی میں پاکستان کی مدد کے لئے چین آگے نہیں آیا۔ اب پاکستان نے بھی سی پیک کے تحت اپنے ملک میں جاری منصوبوں کے لئے چینی شہریوں کی سیکورٹی سے ہاتھ کھڑے کردیئے ہیں۔ اس نے کہا ہے کہ چینی شہری خود اپنی سیکورٹی کے لئے نجی ایجنسیوں کی خدمات حاصل کریں۔ ایسے میں یہ صحیح موقع ہو سکتا ہے جب بھارت سری لنکا کی طرز پر پاکستان کی مدد کے لئے آگے آئے۔ مگر، اس سے پہلے انڈس واٹرٹریٹی 1960 جیسے موضوعات پربات چیت کا موقع بھی تلاش کرنا ضروری ہے اوربھارت نے اس حوالے سے پاکستان کو نوٹس دے دیا ہے۔
بھارت کو مسلسل نظریں جمائے ہوئے پاکستان کی زبان بھی بدل گئی ہے۔ بھارت کی تعریف اور گزشتہ دور میں جنگوں کے باوجود کچھ حاصل نہ کرپانے کا احساس جرم کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ غالباً اس امید میں کیا جا رہا ہے کہ بھارت بھی بحران کی گھڑی میں اس کی مدد کرے۔ ظاہر ہے کہ بھارت سے وہ مدد کی توقع کر رہے ہیں۔
سال 22-2021 میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان 513 ملین ڈالر کی تجارت ہوئی۔ پاکستان نے کشمیر سے آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد بھارت سے تمام درآمدات بند کردیئے تھے۔ سال 2019 میں پلوامہ میں دہشت گردانہ حملے کے بعد ہندوستان نے پاکستان سے موسٹ فیورڈ نیشن (پسندیدہ ترین ملک) کا درجہ چھین لیا تھا، لیکن 2020 میں، کووڈ کے دورمیں، ہندوستان نے پاکستان کو ضروری دواوں کا ایکسپورٹ کیا تھا۔ آج بھی پاکستان، بھارت کی چینی اوردواوں پرمنحصر ہے۔ ظاہر ہے اگر پاکستان اپنی بھارت مخالف حرکتوں کو بند کرتا ہے تو اسے بہت فائدہ ہوسکتا ہے۔ پاکستان کو بحران کی اس گھڑی میں یہ بھی سمجھ آجانا چاہئے کہ چین کی دوستی محض ایک دھوکہ ہے، جو دراصل خود غرضی میں لپٹا ہوا زہر ہے، جس کا انجام خطرناک ہوگا، ٹھیک ویسے ہی جیسے سری لنکا میں ہوا۔ بھارت کے بجٹ میں اپنے پڑوسی ممالک کی مالی مدد کے لئے بھی رقم مختص کی جاتی ہے، لیکن پاکستان اس فہرست میں شامل نہیں ہے، جو اس کے لئے بدقسمتی کی بات ہے۔ ایسے میں پاکستان اگر بھارت کی طرف ایمانداری سے دوستی کا ہاتھ بڑھاتا ہے تو حال کے ساتھ ساتھ اس کا مستقبل بھی سنورسکتا ہے۔
-بھارت ایکسپریس