تصویر سوشل میڈیا (علامتی تصویر)
یوپی مدرسہ ایکٹ کو الہ آباد ہائی کورٹ نے منسوخ کرنے کا فیصلہ سنایا تھا۔ اس کے بعد مدرسہ عزیزیہ اجازت العلوم نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ اپنی عرضی میں کہا کہ ہائی کورٹ کے فیصلے کے سبب مدارس میں پڑھ رہے لاکھوں بچوں کے مستقبل پرسوالیہ نشان لگ گئے ہیں۔ اس لئے فیصلے پرروک لگائی جائے۔ اس معاملے کی سماعت چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑکی صدارت والی بینچ نے کی اور ایکٹ کو منسوخ کرنے والے فیصلے پر روک لگا دی۔
عدالت میں عرضی گزار کی طرف سے ابھیشیک منو سنگھوی پیش ہوئے اورطلبا کی تعداد (تقریباً 17 لاکھ) بتاتے ہوئے ہائی کورٹ کے فیصلے پر حیرانی ظاہرکی اوراعتراض کیا۔ انہوں نے کہا کہ یوپی حکومت کے حکم پرسائنس، ہندی اورریاضی سمیت سبھی موضوعات مدارس میں پڑھائے جا رہے ہیں۔ اس کے باوجود ان کے خلاف قدم اٹھایا جا رہا ہے۔ یہ 120 سال پرانے ضابطہ (1908 کا اصل ضابطہ) کی پوزیشن ہے۔ 1987 کے قوانین اب بھی لاگوہوتے ہیں۔
’کیا ہمیں ان سے کہنا چاہئے کہ یہ ہندومذہبی تعلیم ہے؟‘
ابھیشیک منوسنگھوی نے مزید کہا کہ ہائی کورٹ نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ اگرآپ کوئی مذہبی مضمون پڑھاتے ہیں تو وہ مذہبی عقیدہ کی تعلیم دیتا ہے، جوسیکولرازم کے خلاف ہے۔ سنگھوی نے اپنے والد کا ذکر کرتے ہوئے کہا، آج کے دورمیں گروکل مشہورہیں، وہ اچھا کام کررہے ہیں۔ میرے والد کے پاس بھی ایک ڈگری ہے۔ کیا ہمیں انہیں بند کردینا چاہئے اور کہنا چاہئے کہ یہ ہندو مذہبی تعلیم ہے؟
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے حکومت سے کہا، آپ نے پہلے اپنے حلف نامہ میں مدرسہ ایکٹ کی حمایت کی تھی۔ اس پراٹارنی جنرل نے کہا کہ اب جبکہ ہائی کورٹ ایکٹ کوغیرآئینی قراردے چکی ہے تو ہم اسے قبول کرتے ہیں کیونکہ ہائی کورٹ آئینی عدالت ہے۔ ہم یہ اخراجات نہیں اٹھاسکتے ہیں۔ کسی بھی سطح پر مذہب کا الجھاو ایک مشتبہ موضوع ہے۔ عدالت کے حکم پر یوپی حکومت قدم اٹھا رہی ہے۔
17 لاکھ بچوں کی تعلیم بنی بنیاد
دونوں فریق کی دلیلوں کو سننے کے بعد سپریم کورٹ نے کہا، ہائی کورٹ کے فیصلے سے 17 لاکھ بچوں کی تعلیم کے مستقبل پراثرپڑے گا۔ ہمارا خیال ہے کہ یہ حکم پہلی نظرمیں مناسب نہیں تھا۔ عدالت ہائی کورٹ کو چیلنج دینے کا مطالبہ کرنے والی عرضیوں پریوپی حکومت سمیت دیگرسبھی فریق کو نوٹس جاری کرتی ہے۔ ریاستی حکومت سمیت سبھی فریق کو سپریم کورٹ میں 30 جون 2024 کو یا اس سے پہلے جواب داخل کرنا ہوگا۔ 22 مارچ 2024 کے ہائی کورٹ کے حکم اورفیصلے پرروک رہے گی۔
بھارت ایکسپریس۔