Bharat Express

Udaipur Violence: ادے پور سانحہ پر برہم ہوئے ایڈوکیٹ زیڈ کے فیضان، ملی تنظیموں کو دیا اہم مشورہ

سپریم کورٹ کے ایڈوکیٹ زیڈ کے فیضان نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ کتنا افسوس ناک اورسمجھ سے بالاترہے کہ اس کی آڑمیں اس شخص کا مکان توڑڈالا گیا، جس کے یہاں ملزم محض ایک کرایہ دارتھا اس لئے کہ وہ ایک مسلمان تھا اور الیکٹرانک میڈیا الٹے فخرسے یہ کہہ رہا ہے کہ اس سے جرائم کی دنیا میں ایک سخت پیغام جائے گا۔

ایڈوکیٹ زیڈ کے فیضان (فائل فوٹو)

نئی دہلی: پیپلس اویئرنس فورم کے صدر اورایڈوکیٹ سپریم کورٹ زیڈ کے فیضان نے راجستھان کے ادے پور میں ایک طالب علم کے ذریعہ چاقو زنی کے واقعہ اوراس کے بعد فوری انہدامی کارروایی پراپنے سخت ردِ عمل کا اظہارکرتے ہوئے اسے انتہائی افسوسناک اورقابل مذمت قراردیتے ہوئے کہا کہ اس سے زیادہ افسوس ناک اورشرمناک الکٹرانک میڈیا کا وہ کردار ہے، جواسے ہندومسلم مسئلہ بنا کرمستقل یکطرفہ رپورٹنگ کررہا ہے۔ انہوں نے اپنی پریس ریلیزمیں کہا کہ جس طالب علم نے چاقو زنی کی اسے یقیناً اس کی سزا ملنی چاہئے، مگراس کو فرقہ وارانہ رنگ دینا غلط اورقابل مذمت ہے۔ اس سے ملک کی قومی ہم آہنگی متاثرہوگی۔

انہوں نے کہا کہ یہ کتنا افسوس ناک اورسمجھ سے بالاترہے کہ اس کی آڑمیں اس شخص کا مکان توڑڈالا گیا، جس کے یہاں ملزم محض ایک کرایہ دارتھا اس لئے کہ وہ ایک مسلمان تھا اورالیکٹرانک میڈیا الٹے فخرسے یہ کہہ رہا ہے کہ اس سے جرائم کی دنیا میں ایک سخت پیغام جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ایڈمنسٹریشن کا یہ کہنا کہ وہ مکان محکمہ جنگلات کی زمین پربنا ہوا تھا اور ہم نے اس کے لئے پہلے سے نوٹس دے رکھی تھی اس لئے بلڈوزکیا گیا انتہائی مضحکہ خیزہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ واقعہ کے چند گھنٹے بعد ہی انتظامیہ کویہ خیال کیوں آیا کہ اس کا فوری طور پرگرایا جانا ضروری ہے۔ دوسری بات یہ کہ وہاں تو پوری کالونی ہی جنگل کی زمین پربنی ہوئی ہے تو پھرکسی ایک شخص واحد کے خلاف کاروائی کیوں؟ تیسری اورسب سے اہم بات یہ ہے کہ ملزم طالب علم مکان مالک کے یہاں محض ایک کرایہ دار تھا، جس سے مالک مکان کا کچھ لینا دینا تھا ہی نہیں۔
زیڈ کے فیضان نے کہا کہ یکے بعد دیگرے پورے ملک میں ہو رہی اس طرح کی بلڈوزرکارروائیوں کا روکا جانا بہت ضروری ہے۔ ایڈمنسٹریشن کوبنا کورٹ آرڈرکے کسی بھی عمارت کواس طرح منمانی ڈھنگ سے توڑنے کا اختیارنہیں ہے اور رہایشی مکان کو تو بالکل ہی نہیں۔ انھوں نے کہا کہ اس معاملے میں سپریم کورٹ کو ازخود نوٹس لیتے ہوئے پورے ملک کی سطح پرایک جنرل آرڈرپاس کرنا چاہئے کہ بنا کسی جوڈیشیل ارڈرکے اس طرح بلڈوزرچلانے کی کارروائی نہ کی جائے اوراگرکہیں ایسا ہوتا ہے تو ایڈمنسٹریشن توہین عدالت کا مرتکب ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ اگرایسا نہ ہوا اور یک طرفہ بلڈوزرکارروائیاں یوں ہی چلتی رہیں اورالیکٹرانک میڈیا کا یہی رویہ بر قرار رہا تواس سے ملک میں فرقہ وارانہ کشیدگی میں مزید اضافہ ہوگا، جوانتشاراوربدامنی میں بدل سکتی ہے اوریہ کسی بھی ملک کے لئے مثبت بات نہیں ہے۔

انھوں نے کہا کہ جس طرح مسلمانوں کی ہرطرح تذلیل کی جا رہی ہے، آئے دن ان کی عبادت گاہیں توڑی جا رہی ہیں، ہر بہانے ان کے حقوق صلب کئے جا رہے ہیں اورانھیں سیکنڈ کلاس شہری بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے، اس سلسلے میں مسلم جماعتوں خصوصاً مسلم پرسنل لاء بورڈ، دونوں جمعیۃ علماء ہند (ارشدمدنی گروپ اورمحمود مدنی گروپ)، جماعت اسلامی اور مجلس مشاورت کو ایک ساتھ بیٹھ کر جمہوری ڈھنگ سے آوازبلند کرنے کے لئے کوئی مثبت لائحہ عمل تیارکرنا ہوگا، ورنہ حالات بد سے بد ترہوتے چلے جائیں گے۔ زیڈ کے فیضان نے مذید کہا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی حکومت حالیہ انتخابات میں ایک زبردست جھٹکا لگنے کے بعد بھی حالات سے سبق نہ لیتے ہوئے نہ صرف مسلم دشمنی کی اپنی پرانی روش پر قایم ہے بلکہ اس میں مذید شدت پسندی آگیی ہے۔

 بھارت ایکسپریس