Bharat Express

Transfer of Justice Dinesh Kumar Singh: مافیاوں کی نیند اُڑا دینے والے الہ آباد ہائیکورٹ کے جسٹس دنیش کمار کا ہوا تبادلہ، بحث کا بازار گرم

حالانکہ اس فیصلے کے خلاف کچھ حد تک ناراضگی بھی دیکھی گئی ہے اور جسٹس ڈی کے سنگھ نے اس ٹرانسفر کو بدلنے کیلئے سپریم کورٹ کو ریپرزنٹیشن بھی بھیجا تھا لیکن سپریم کورٹ کالجیم نے اس کو خارج کرتے ہوئے تبادلے کا حکم صادر کردیا ہے۔

الہ آباد ہائیکورٹ کے مشہور جج جسٹس دنیش کمار سنگھ کو اب کیرل ہائیکورٹ ٹرانسفر کردیا گیا ہے ۔ جسٹس دنیش کمار کے ٹرانسفر سے سیاسی اور سماجی گلیاوں میں بحث کا بازار گرم ہے ۔ دراصل جسٹس دنیش کمار نے اترپردیش میں مافیاوں کے خلاف جس تیز رفتاری کے ساتھ کاروائی کی ہے اور جس طرح سے مافیاوں کے کالے کارناموں کے بدلے انہیں عدالتی ڈنڈے سے کیفر کردار تک پہنچایا ہے اس سے نہ صرف یہ کہ سینکروں مقدمات کا سامنا کرنے والے بے خوف مافیا گھبراہٹ کے شکار ہوگئے بلکہ جو جیلوں میں بند ہیں انہیں بھی جسٹس دنیش کمار سے خوف آنے لگا۔ جسٹس کمار نے مافیاوں کے خلاف معاملات کے نپٹارے میں سرعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک الگ ہی پہچان بنائی ہے لیکن اب اس پہچان سے آگے بڑھ کر انہیں کیرل میں ایک نئی پہچان بنانی ہوگی ۔ چونکہ سپریم کورٹ کی کالجیم نے جسٹس دنیش کمار کو الہ آباد ہائیکورٹ سے کیرل ہائی کورٹ ٹرانسفر کرنے کی سفارش کردی ہے۔

نہیں جانا چاہتے تھےکیرل ہائیکورٹ

حالانکہ اس فیصلے کے خلاف کچھ حد تک ناراضگی بھی دیکھی گئی ہے اور جسٹس ڈی کے سنگھ نے اس ٹرانسفر کو بدلنے کیلئے سپریم کورٹ کو ریپرزنٹیشن بھی بھیجا تھا لیکن سپریم کورٹ کالجیم نے اس کو خارج کرتے ہوئے تبادلے کا حکم صادر کردیا ہے۔ عدالتی زبان میں ریپرزینٹیشن کا مطلب دوسری پسندیدہ عدالتوں میں ٹرانفسر کروانا ہوتا ہے ، جس کے تحت جسٹس کمار نے دہلی، ہریانہ پنجاب، مدھیہ پردیش اور راجستھان کی ہائیکورٹ کا حوالہ دیا تھا اور کالجیم سے درخواست کی تھی کہ انہیں کیرل نہ بھیج کر ان ریاستوں یا آس پاس کے دوسرے ہائیکورٹ میں ان کا تبادلہ کردیا جائے ۔ لیکن سپریم کورٹ کے کالجیم نے جسٹس دنیش کی درخواست کو خارج کرتے ہوئے کیرل بھیجنے کا فیصلہ برقرار رکھا ہے۔

فیصلے سے قانون کے ماہرین حیران

تین ججوں اور خاص کر جسٹس دنیش کمار سنگھ کے تبادلے کی سفارش سے قوانین کے ماہرین کافی حیران ہیں۔ اس لیے یہ معاملہ اب زور پکڑ رہا ہے۔ لوگ اس بات سے حیران ہیں کہ جس عدالت میں انصاف کے لیے لوگ مدتوں جوتیاں رگڑ کر دم توڑ دیتے ہیں، اسی عدالت کے جج جسٹس دنیش کمار سنگھ ،جو جلد انصاف دینے  کے رواج کو عام کرکے ایک نئی بیداری پیدا کررہے تھے ، ایک نیا ٹرینڈ سیٹ کررہے تھے تاکہ لوگوں کو وقت پر جلد انصاف مل سکے۔  ایسے میں ان کا ہی ٹرانسفر ہوجانا ، کسی بھی طرح سے ہضم نہیں ہو رہا ہے کہ انہیں فوری انصاف کا نتیجہ ٹرانسفر کے طور پر ملا ہے۔ جسٹس دنیش کمار سنگھ کے فیصلوں میں قانون کے اصول کے ساتھ ساتھ معاشرے کے طویل مدتی نتائج اور حالات کے تئیں حساسیت کی بحث کو خاص طور پر شامل کیا گیا ہے۔  ایک با رآئی آئی ٹی میں پڑھنے والی ایک لڑکی نے فیس ادا نہ کرنے پر عدالت سے جب رجوع کیا تو جسٹس سنگھ نے نہ صرف عدالت سے اسے انصاف دیا بلکہ اس کی فیس بھی اپنی جیب سے ادا کی۔

وکالت  سے جسٹس تک کا سفر

جسٹس دنیش کمار سنگھ شروع سے ہی اپنے شوخ انداز کے لیے جانے جاتے ہیں۔ لوگوں کو اپنی وکالت سے انصاف کی دہلیز تک لے جانے والے جسٹس سنگھ نے جج بننے کے بعد بھی اپنا جذبہ جاری رکھا۔ الہ آباد یونیورسٹی سے ایل ایل بی اور دہلی یونیورسٹی سے ایل ایل ایم کرنے کے بعد، انہوں نے 1993 میں وکیل کے طور پر خود کو رجسٹر کروایا۔ 1997 تک جسٹس سنگھ نے الہ آباد ہائی کورٹ میں پریکٹس کی۔ اس کے بعد 1998 میں سپریم کورٹ میں بطور وکیل پریکٹس شروع کی۔ سال 2017 میں ان کی بطور ایڈیشنل جج تقرری ہوئی۔ اس کے بعد، 2019 میں، انہوں نے مستقل جج کے طور پر حلف لیا۔

بارایسوسی ایشن نے ہڑتال کا کیا اعلان

واضح رہے کہ سپریم کورٹ کی کالجیم نے گزشتہ دنوں تین ہائیکورٹ کے ججوں کے تبادلے کی سفارشات حکومت کو بھیجی تھی جن میں ایک نام الہ آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس دنیش کمار کا بھی ہے۔ جبکہ دوسرا نام دہلی ہائیکورٹ کے جسٹس گورانگ کانت  کا ہے جنہیں کلکتہ ہائیکورٹ ٹرانفسر کرنے کی سفارش کی گئی ہے جبکہ تیسرا نام پنجاب ہریانہ ہائیکورٹ کے جسٹس منوج بجاج کا ہے جنہیں الہ آباد ہائیکورٹ منتقل کرنے کی سفارش کی گئی  ہے۔ اس بیچ دہلی ہائیکورٹ کے جج جسٹس گورانگ کانت کی منتقلی کے خلاف دہلی ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کافی برہم ہے اور اس فیصلے کے خلاف باضابطہ طور پر ہڑتال کا حیران کن فیصلہ کیا ہے۔ 17 جولائی کو بار ایسوسی ایشن کی جانب سے یک روزہ ہڑتال کا اعلان کیا گیا ہے۔ عام طور پر ایسوسی ایشن کی جانب سے اس طرح کے ہڑتال کا فیصلہ  نہیں ہوتا لیکن جسٹس کانت کو لیکر بار ایسوسی ایشن نے یہ حیران کن قدم اٹھایا ہے۔ دیکھنا ہوگا کہ اس کا کتنا اثر ہوتا ہے۔

سپریم کورٹ  میں 2 نئےججز کی ہوئی حلف برداری

اس بیچ آج سپریم کورٹ کو دو نئے ججز مل گئے ہیں ۔ چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے تلنگانہ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اُجول بھوئیاں  اور کیرل  ہائیکورٹ کے چیف جسٹس ایس وی بھٹی کو سپریم کورٹ کے جسٹس کے طور پر عہدے کا حلف دلایا ہے۔ دہلی کی نچلی عدالت میں حلف برداری کی تقریب منعقد کی گئی جس میں چیف جسٹس سمیت دیگر ججز اور وکلا موجود تھے ۔ آج سپریم کورٹ میں نئے ججز کی حلف برداری کے ساتھ  موجودہ وقت میں ججز کی تعداد اب 34 ہوگئی ہے۔ جسٹس بھوئیاں  کی مدت کار 2 اگست 2029 تک ہے جبکہ جسٹس ایس وی بھٹی 6 مئی 2027 کو ریٹائر ہوں گے۔ مرکزی حکومت نے حال کے دنوں میں کالجیم کی طرف سے سفارش کئے گئے ان دونوں ناموں کو منظوری دی تھی جس کے بعد آج انہیں حلف دلایا گیا ہے۔

کالجیم  کا نظام شفاف نہیں: سابق جسٹس چلمیشور

جسٹس دنیش کمار سنگھ کے تبادلے کی سفارش پر بحث کے لیے کالجیم کا کام کرنے کا انداز بڑی حد تک ذمہ دار ہے۔ اپریل 2023 میں سپریم کورٹ کے سابق جج چلمیشور نے کالجیم کے کام کرنے کے انداز پر سوال اٹھایاتھا۔ کالجیم پر سنگین سوالات اٹھاتے ہوئے، سابق جج چلمیشور نے کیرالہ ہائی کورٹ کے ایک پروگرام میں کہا تھا کہ کچھ الزامات کالجیم کے سامنے آتے ہیں، لیکن عام طور پر ان کے بارے میں کچھ نہیں کیا جاتا۔ اگر الزامات ہیں تو کارروائی ہو سکتی ہے۔ کچھ جج اتنے سست ہوتے ہیں کہ  فیصلہ لکھنے میں سالوں لگ جاتے ہیں۔ کچھ جج نااہل ہیں۔

کالجیم کے کام کرنے کا طریقہ

اہم بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ کالجیم اپنی سفارشات مرکزی حکومت کی وزارت قانون کو بھیجتا ہے۔ وزارت قانون اس پر رضامندی کے بعد نوٹیفکیشن جاری کرتی ہے۔ اگر مرکزی حکومت کالجیم کی سفارش سے اتفاق نہیں کرتی ہے تو وہ اسے دوبارہ غور کرنے کے لیے واپس کر سکتی ہے۔ اس کے بعد پھر سے کالجیم اگر وہی نام بھیجتا ہے تو وزارت کے پاس پھر سے واپس لوٹانے کا موقع ہوتا ہے ۔ اگر کسی معاملے میں ایسی رسہ کشی چلتی ہے تو پھر مرکز اور عدلیہ کے درمیان  تلخیاں بھی پیدا ہوجاتی ہیں ،جیسا کے کرن رجیجو کے وزیررہتے ہوئے دیکھنے کو ملا تھا۔

بھارت ایکسپریس۔

Also Read