اترپردیش میں پھر سیاسی سرگرمیاں ہونگی تیز
ایک طرف لوک سبھا انتخابات کے نتائج آچکے ہیں تو دوسری طرف یوپی میں دوسرے الیکشن کو لے کر جوش و خروش بڑھنے والا ہے۔ یوپی میں اس بار ایم پی جیتنے والے ایم ایل اے کی سیٹوں پر آنے والے دنوں میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ وہیں سماجوادی پارٹی کے رکن اسمبلی عرفان سولنکی کو سزا سنائے جانے کے بعد ان کی لیجسلیچر بھی خطرے میں دکھائی دے رہی ہے، اس لیے وہاں بھی ضمنی انتخابات کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ سماجوادی پارٹی کے خلاف بغاوت کرنے والے چھ ایم ایل اے پر بھی خطرات کے بادل منڈ لانے لگے ہیں ۔
اکھلیش یادو جلد ہی باغی ایم ایل اے کے خلاف کارروائی کر سکتے ہیں۔ اگر ان تمام سیٹوں کو ملایا جائے تومجموعی طورپر ان سیٹوں کی تعداد 16 ہوجاتی ہے۔ موجودہ صورتحال کے مطابق ان 16 سیٹوں میں سے فی الحال صرف پانچ سیٹیں بی جے پی کے پاس ہیں۔ سماجوادی پارٹی ایم ایل اے 11 سیٹوں پر قابض ہیں۔ ایسے میں سماجوادی پارٹی حالیہ لوک سبھا انتخابات کے نتائج سے کافی پرجوش نظر آرہی ہے، وہیں بی جے پی کے لیے یہ سخت محنت کا راستہ ثابت ہونے والی ہے۔
سماج وادی پارٹی نے 37 سیٹیں جیت کر اتر پردیش میں پہلی پوزیشن حاصل کی ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ ملک کی تیسری سب سے بڑی پارٹی بن گئی ہے۔ اس جیت کے بعد سماجوادی پارٹی اس ضمنی انتخاب اور 2027 کو لے کر کافی پرجوش دکھائی دے رہی ہے۔ تاہم لوک سبھا اور اسمبلی کے انتخابات اور ووٹنگ کے انداز بالکل مختلف ہیں۔ راجیہ سبھا انتخابات کے دوران ایس پی کے خلاف بغاوت کرنے والے چھ ایم ایل اے کا سیاسی مستقبل بھی خطرے میں ہے۔
37 سیٹیں جیتنے کے بعد اکھلیش یادو اسمبلی اسپیکر کو خط لکھ کر باغی ایم ایل اے کی قانون سازی کی مدت ختم کرنے کی درخواست کر سکتے ہیں۔ اس کے بعد اگر قواعد و ضوابط کے مطابق ان کی قانون سازی کی مدت ختم ہوتی ہے تو ان نشستوں پر بھی دوبارہ ضمنی انتخابات ہوں گے۔ راجیہ سبھا انتخابات میں بی جے پی کے حق میں ووٹ دینے والے ایم ایل اے راکیش پرتاپ سنگھ، ابھے سنگھ، راکیش پانڈے، منوج پانڈے، ونود چترویدی اور پوجا پال ہیں۔
بھارت ایکسپریس۔