Supreme Court News: سپریم کورٹ نے پیر (16 اکتوبر) کو ایک شادی شدہ خاتون جو 26 ہفتوں کی حاملہ تھی اسقاط حمل کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ عدالت نے یہ فیصلہ ایسے وقت میں دیا ہے جب ایمس کی رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ خاتون کے پیٹ میں بچہ نارمل ہے۔ عدالت نے پایا کہ ڈپریشن میں مبتلا خاتون جو دوائیں لے رہی تھی اس سے بچے کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔
درحقیقت جب جمعہ کو اس معاملے کی سماعت ہوئی تو چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کی بنچ نے ایمس میڈیکل بورڈ کو رحم میں بچے پر پڑنے والے اثرات سے متعلق رپورٹ داخل کرنے کا حکم دیا تھا۔ خاتون نے اپنی درخواست میں کہا ہے کہ وہ lactational amenorrhea نامی عارضے میں مبتلا ہے۔ وہ ڈپریشن کا بھی شکار ہے اور اس کی مالی حالت بھی اچھی نہیں ہے۔ اس لیے وہ اپنے تیسرے بچے کی پرورش کے قابل نہیں ہے۔
دو ججوں کے بنچ میں اختلاف کے بعد چیف جسٹس کے پاس پہنچا کیس
اس سے قبل اس کیس کی سماعت دو ججوں کی بنچ کے سامنے ہوئی تھی۔ 11 اکتوبر کو ہونے والی سماعت میں بنچ نے منقسم فیصلہ دیا۔ ایک جسٹس نے اسقاط حمل کی اجازت دینے سے ہچکچاہٹ کا اظہار کیا جبکہ دوسرے جسٹس نے کہا کہ عورت کے فیصلے کا احترام کیا جانا چاہیے۔ جسٹس ہیما کوہلی نے حیرت کا اظہار کیا کہ کون سی عدالت کہے گی کہ جنین کے دل کی دھڑکن بند کر دی جائے؟ انہوں نے کہا کہ وہ خاتون کو اسقاط حمل کی اجازت نہیں دے سکتے۔
یہ بھی پڑھیں- Nithari Kand: نٹھاری کانڈ میں بڑا فیصلہ – سریندر کولی اور منندر سنگھ پنڈھیر تمام مقدمات سے بری، سزائے موت منسوخ
ساتھ ہی جسٹس بی وی ناگارتنا نے کہا کہ عدالت کو اس خاتون کے فیصلے کا احترام کرنا چاہیے، جو اسقاط حمل کرانے پر قائم ہے۔ جسٹس کوہلی اور جسٹس ناگارتنا کی بنچ نے یہ حکم 9 اکتوبر کو دیا تھا۔ بنچ کے دونوں ججوں کے درمیان اختلاف کے پیش نظر، چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کے سامنے مرکز کی درخواست پیش کرنے کا فیصلہ کیا گیا، جس میں مرکز نے خاتون کو اسقاط حمل کی اجازت دی تھی۔ آج سپریم کورٹ میں اس معاملے کی سماعت ہوئی۔
-بھارت ایکسپریس