نتاشا ملاس
ماہواری کے دوران استعمال کی جانے والی مصنوعات تک زیادہ سے زیادہ رسائی کو ممکن بنانے میں سوشل انٹرپرائزز اور اسٹارٹ اپس کی بڑھتی ہوئی شرکت کی بدولت ہندوستان میں اس قدرتی عمل کے دوران حفظانِ صحت سے متعلق بیانیہ میں نمایاں تبدیلیوں کا مشاہدہ کیا جارہا ہے۔
اس طرح کی دو کمپنیوں’ٹینڈرل پروڈکٹس‘ اور’پَیڈ کیئر لیبس‘ نے نئی دہلی میں واقع امیریکن سینٹر کے نیکسَس اسٹارٹ اپ ہب اور یو ایس ایڈ کی مدد سے پورے ہندوستان میں ماہواری کے دوران صفائی ستھرائی کے انتظام کو بہتر بنانے میں تعاون کیا ہے۔
مصنوعات کا انہیں استعمال کرنے والوں تک پہنچانا
ہندوستان میں ماہواری کے دوران صفائی ستھرائی کے انتظام میں بہتری لانے کی غرض سے آرتی شرما نے’ٹینڈرل پروڈکٹس‘ کومشترکہ طور پر قائم کیا تھا ۔ کمپنی سہولت کے ساتھ ماہواری کے دوران استعمال کیے جا نے والے پَیڈ کی فراہمی اور استعمال کے بعد انہیں تلف کرنے میں مدد کرنے والی مشینیں فراہم کرتی ہے۔ شرما بتاتی ہیں کہ وہ سماجی کاروباری پیشہ ور اروناچلم مورو گاننتھم سے متاثر تھیں جنہوں نے سستے پَیڈ بنانے والی مشین ایجاد کی تھی ۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کی کمپنی کی جانب سے بنائی جانے والی مشینیں صارف دوست ہونے کے ساتھ کام کے اعتبار سے موثر بھی ہیں۔ صارفین روایتی نقد لین دین، ٹوکن، مفت وینڈنگ بٹن، کی پیڈس، پری پیڈ اسمارٹ کارڈس اور کیو آر کوڈ سمیت مختلف طرح کی ادائیگی کے طریقوں کے ذریعے پَیڈحاصل کرسکتے ہیں۔ شرما بتاتی ہیں ’’ہماری مشینیں مختلف ضروریات اور ترجیحات کی تکمیل کے لیے دیوار پر نصب برقی اور غیر برقی دونوں قسموں کی ہوتی ہیں۔‘‘
یہ مشینیں تعلیمی اداروں، کارپوریٹ دفاتر اور عوامی بیت الخلا میں لگائی جاتی ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ رسائی کو یقینی بنایا جا سکے۔ شرما کہتی ہیں ’’ہم لوگ اس سلسلے میں مکمل تعاون کرتے ہیں جس میں اعلیٰ معیار کے اور کم خرچ سینیٹری پَیڈ کی باقاعدگی سے ماہانہ فراہمی بھی شامل ہے۔‘‘
شرما کہتی ہیں کہ ان وینڈنگ مشینوں نے ماہواری کے دوران حفظان صحت اور رسائی کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ وہ کہتی ہیں ’’ہماری مشینیں اعلیٰ معیار کے سینیٹری نیپکن تک آسان رسائی فراہم کرتی ہیں جس کی وجہ سے نقصان دہ طریقوں اور انفیکشن کے خطرے میں نمایاں کمی واقع ہوتی ہے۔‘‘ وہ مزید بتاتی ہیں کہ اس طرح ’’اسکولوں اور کالجوں میں پڑھنے والی لڑکیوں میں باقاعدگی سے کلاسوں میں شرکت کرنے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ کارپوریٹ دفاتر اور فیکٹریوں میں یہ مشینیں افرادی قوت میں خواتین کی زیادہ سے زیادہ شرکت کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔‘‘
نیکسس اسٹارٹ اپ ہب سے ملنے والی مدد نے شرما کوایک نئے نقطہ نظر سے متعارف کرایا۔ شرما کہتی ہیں ’’نیکسس اسٹارٹ اپ ہب کے ساتھ میرا تجربہ کسی اہم تبدیلی سے کم نہیں تھا۔ اس سے پہلے میں روز مرہ کے معاملات میں گہری دلچسپی رکھتی تھی جس کی وجہ سے میرے پاس ایک قدم پیچھے ہٹنے اور بڑی تصویر دیکھنے کے محدود مواقع موجود تھے۔‘‘ وہ مزید کہتی ہیں’’مجھے جو دوبدو رہنمائی ملی وہ قسمت بدلنے والی ثابت ہوئی۔ اس بیش قیمتی رہنمائی نے مجھے وہ بصیرت فراہم کی جو مجھے کبھی حاصل نہیں ہوئی تھی۔ جو چیز نمایاں تھی وہ فیڈبیک تھا۔ یہ صرف کمزوریوں کو دور کرنے کے بارے میں نہیں تھا بلکہ ان شعبوں میں بہتری کی نشاندہی کے لیے بھی تھا جہاں حالات ٹھیک تھے ۔ یہاں زور اس بات پر بھی تھا کہ بہتری کی گنجائش ہمیشہ موجود رہتی ہے۔ ‘‘
ماحول مخالف گیسوں کے اخراج میں کمی
’پَیڈ کیئر لیبس‘ کا ماہواری کے دوران حفظان صحت کا نظام ایک مکمل سلسلے کا احاطہ کرتا ہے جس میں سینیٹری پیڈ تک رسائی سے لے کراستعمال شدہ پیڈس کی ری سائیکلنگ اور ری سائیکل شدہ مواد تیار کرنا شامل ہے۔ یو ایس ایڈ سے امداد یافتہ یش انٹرپرینرس پروگرام سے منسلکپیڈ کیئر لیبس نے اس صنعت پر بڑے پیمانے پر اثرات مرتب کیے ہیں۔
اس کے بانی اور سی ای او اجنکیا دھاریا کہتے ہیں ’’۲۰۱۸ءمیں قائم کی جانے والی پیڈ کیئر لیبس سینیٹری کوڑے دان ،ایک ری سائیکلنگ سسٹماور ری سائیکل شدہ باقیات سے تیار کردہ مصنوعاتپیش کرتا ہے۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں’’یہ جدید طریقہ کار سینیٹری نیپکن سے ضرر رساں فضلے کو مؤثر طریقے سے ہٹاتا ہے اور استعمال شدہ پیڈکو سیلولوز میں تبدیل کرتا ہے جنہیں پیکیجنگ انڈسٹری میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اس سے گلدان، سڑکوں اور فرشوں پر لگائے جانے والے بلاکس ( پیوَر بلاکس) جیسے مصنوعات بھی تیار کیے جاتے ہیں۔‘‘
یہ کیسے کام کرتا ہے؟ دھاریا کا کہنا ہے کہ اس اسٹارٹ اپ نے پیڈ کیئر ایکس کے نام سے ایک مشین تیار کی ہے جو ’’خاص طور پر استعمال شدہ سینیٹری نیپکن کو جراثیم سے پاک کرنے اور ان کے باریک ٹکڑے کرنے کے لیے‘‘ڈیزائن کی گئیہے۔ مشین اعلیٰ طور پر جذب کرنے والے پولیمرکو بے اثر کر کے ایک حل کے ذریعے ہٹائے گئے مواد کو پروسیس کرتی ہے اور پھر اجزا کو ری سائیکل کیے جانے والے سیلولوز میں بدل دیتی ہے۔
دھاریا کہتے ہیں کہ یہ بھی بہت تیزی سے کام کرتی ہے اور صرف ۲۰ منٹ میں ۵۰ پیڈس کو پروسیس کرتی ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہماحولیات کو اس سے بہت زیادہ فائدےہیں اور ’’پیڈ کیئر فی کلوگرام پیڈ کے مقابل دو اعشاریہ ۱۴ کلو گرام کے مساوی کاربن ڈائی آکسائیڈکا اخراج روکتی ہے ۔‘‘
اب تک پیڈ کیئر نے ہندوستانمیں ۵۵۰ گاہکوں کے دفاتر میں دس ہزارکوڑے دان مفت میں نصب کیے ہیںجو روزانہ تقریباً ایک اعشاریہ پانچ ٹن سینیٹری پیڈ کی پروسیسنگ کرتے ہیں۔ کمپنی بینگالورو اور نئی دہلی میں پیڈ کیئر یونٹ متعارف کرانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ دھاریا کہتے ہیں ’’پیڈ کیئر کی توسیع کے ساتھ ساتھ اس کا مقصد ٹیئر ٹو(پچاس ہزار سے ننانوے ہزار کے درمیان آبادی والے شہر) اور ٹیئرتھری (بیس ہزار سے زائد اور پچاس ہزار سے کم آبادی والے شہر)شہروں میں مائیکرو انٹرپرینرشپ ماڈل کا استعمال کرتے ہوئے ان یونٹس کو متعارف کرنا ہے۔‘‘اس صنعت میں کام کرنے والی ان دونوں کمپنیوں کے مدد سے ہندوستان میں ماہواریکے دوران حفظان صحت پر مثبت اثرات میں توسیع جاری رہے گی جس سے ملک بھر میں ماہواریسے متعلق مصنوعات تک رسائی اور اس کے فضلہ کے انتظام و انصرام کے ذمہ دارانہ طریقوں کے لیے زیادہ پائیدار اور جامع نقطہ نظر کی راہ ہموار ہوگی۔
بشکریہ اسپَین میگزین، امریکی سفارت خانہ، نئی دہلی
بھارت ایکسپریس۔