Bharat Express

Bahraich School News: بہرائچ کے پرائیویٹ اسکول کی مذموم حرکت، سوالیہ پرچہ ہندوستانی مسلمانوں کو دہشت گردی بتایا ،مقامی مسلمانوں میں بر ہمی ،کار وائی کا کیا مطالبہ

جمعیۃ علماء ہند کے ضلع صدر مولانا قاری زبیر نے کہا کہ پرائیویٹ اسکول میں جاری سوالیہ پرچہ میں مسلمانوں کے حوالے سے کئی متنازعہ تبصرے ہیں۔ اس میں ہندوستانی مسلمانوں کا تعلق دہشت گرد تنظیم سے بتایا گیا ہے اور مسلمانوں کا دہشت گردوں سے موازنہ کیا گیا ہے جو کہ قابل مذمت ہے

اتر پردیش کے ضلع بہرائچ کے ایک پرائیوٹ اسکول کی جانب سے قابل مذموم حرکت کی گئی ہے، ان دنوں یہاں کے ایک پرائیویٹ سکول میں ششماہی امتحانات چل رہے ہیں۔ اس دوران نویں جماعت کے ہندی سوالیہ پرچہ میں ہندوستانی مسلم دہشت گرد لکھا گیا ہے۔ اس کے بعد مقامی مسلمان اس پر برہم  ہوگئے، معاملہ گرو کرپا ڈیوائن گریس پبلک اسکول کا ہے۔ اس اسکول کا سوالیہ پرچہ سوشل میڈیا پر وائرل ہوتے ہی موضوع بحث بن گیا۔

اس معاملے کو لے کر مقامی مسلمانوں نے ضلع مجسٹریٹ مونیکا رانی کو شکایتی خط دے کر بہرائچ کے ڈیوائن گریس پبلک اسکول کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ اس دوران جمعیۃ علماء ہند کے ضلع صدر مولانا قاری زبیر نے کہا کہ پرائیویٹ اسکول میں جاری سوالیہ پرچہ میں مسلمانوں کے حوالے سے کئی متنازعہ تبصرے ہیں۔ اس میں ہندوستانی مسلمانوں کا تعلق دہشت گرد تنظیم سے بتایا گیا ہے اور مسلمانوں کا دہشت گردوں سے موازنہ کیا گیا ہے جو کہ قابل مذمت ہے۔ معاملہ زور پکڑتا دیکھ کر انتظامیہ نے تحقیقات شروع کر دی ہیں۔

مسلمانوں کے خلاف مہم چلائی جا رہی ہے

مولانا قاری زبیر نے کہا کہ کہیں نہ کہیں اس سے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کا کام ہو رہا ہے۔ پرائیویٹ اسکولوں میں مسلمانوں کے خلاف ایک بڑی مہم چلائی جارہی ہے۔ باہمی ہم آہنگی کو تباہ کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ یہ اسکول ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان ایک بڑی خلیج کھودنے کا کام کر رہا ہے۔ اس پر سخت ایکشن لیا جائے۔ اگر دیکھا جائے تو پرائیویٹ سکول تعلیم کے نام پر فرقہ واریت کے ساتھ معصوم بچوں کے ذہنوں میں زہر گھولنے کا کام کر رہے ہیں۔ امتحان میں ہندی کے سوالیہ پرچے میں پوچھا گیا ہے کہ ‘ہندوستانی مسلمان لشکر طیبہ، القاعدہ، طالبان اور اسلامی سیاست کی مختلف تنظیموں جیسی دہشت گردی میں ملوث ہیں۔’

بہرائچ کے ضلع اسکول انسپکٹر نریندر دیو نے اس معاملے پر کہا، “مجھے کلکٹریٹ سے ایک افسر کا فون آیا جس میں مجھ سے تحقیقات کرنے اور کارروائی کے بارے میں مطلع کرنے کو کہا گیا، میں نے فوری طور پر وہاں کے پرنسپل سے رابطہ کیا، رات ہو گئی تھی اور فون نہیں اٹھایا گیا، اگلے دن جب میں نے ان سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ ہم نے اپنے لیول پر ٹیچر سے معافی کی درخواست لی ہے، ہم نے اپنی سطح پر اس کی خدمات ختم کر دی ہیں، ہم نے ان سے کہا کہ آپ کی طرف سے کی گئی کارروائی مجھے بھیج دیں۔ کلکٹریٹ کو اس پوری رپورٹ کی ہارڈ کاپی، اس قسم کا سوال نہیں پوچھا جانا چاہیے، کسی خاص شخص کے جذبات کو ٹھیس نہیں پہنچنی چاہیے، اس کی سروس ختم کر کے اچھا کیا۔

بھارت ایکسپریس۔

Also Read