سپریم کورٹ نے الیکشن کمشنر کے طور پر ارون گوئل کی تقرری پر فائل طلب کی
نئی دہلی، 23 نومبر (بھارت ایکسپریس): سپریم کورٹ نے بدھ کو زبانی طور پر کہا کہ ملک کو ایک چیف الیکشن کمشنر (سی ای سی) کی ضرورت ہے جو وزیر اعظم کے خلاف بھی کارروائی کر سکے۔ عدالت نے مرکزی حکومت سے گزشتہ ہفتے مقرر کئے گئے الیکشن کمشنر (ای سی) کے انتخاب کے طریقہ کار کی وضاحت کرنے کو بھی کہا ہے۔ جسٹس کے ایم جوزف کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بنچ نے کہا کہ ہمیں ایک ایسے سی ای سی کی ضرورت ہے جو کہ وزیر اعظم کے خلاف بھی کارروائی کر سکے۔
بنچ میں جسٹس اجے رستوگی، جسٹس انیرودھ بوس، رشیکیش رائے اور سی ٹی روی کمار نے کہا کہ، مثال کے طور پر فرض کریں کہ وزیر اعظم کے خلاف کچھ الزامات ہیں اور سی ای سی کو کارروائی کرنی ہے، لیکن سی ای سی کمزور ہے اور کارروائی نہیں کرتا ہے تو ایسے میں کیا یہ نظام کی مکمل خرابی نہیں ہے؟ بنچ نے مرکز کے وکیل سے یہ سوال پوچھا ۔ سی ای سی کو سیاسی اثر و رسوخ سے آزاد ہونا چاہئے اور اسے خود مختار ہونا چاہئے۔
بنچ نے کہا کہ یہ وہ پہلو ہیں جن پر آپ (مرکز کے وکیل) کو غور کرنا چاہئے کہ ہمیں سی ای سی کو منتخب کرنے کے لئے ایک آزاد بڑے ادارے کی ضرورت کیوں ہے نہ کہ صرف کابینہ کی۔ بنچ نے زبانی طور پر کہا کہ کمیٹیاں کہتی ہیں کہ تبدیلی کی اشد ضرورت ہے اور سیاستدان بھی اس کا مطالبہ کرتے ہیں، لیکن کچھ نہیں ہوتا۔ مرکز کی نمائندگی اٹارنی جنرل آر وینکٹ رمنی، سالیسٹر جنرل تشار مہتا اور ایڈیشنل سالیسٹر جنرل بلبیر سنگھ نے کی۔
بنچ نے مرکز کے وکیل سے یہ بھی کہا کہ وہ الیکشن کمشنر کی تقرری کے عمل کو ظاہر کرے۔ سابق بیوروکریٹ ارون گوئل نے 19 نومبر کو اس عہدے پر تعیناتی کے بعد پیر کو الیکشن کمشنر کا عہدہ سنبھال لیا۔ سشیل چندر کی ریٹائرمنٹ کے بعد اس سال مئی سے تین رکنی کمیشن میں الیکشن کمشنر کا عہدہ خالی پڑا تھا۔
سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے کہا کہ کنونشن کے مطابق الیکشن کمشنر کی تقرری کرتے وقت ریاست اور مرکزی حکومت کے تمام سینئر بیوروکریٹس اور افسران کو مدنظر رکھا جاتا ہے اور اس کی سختی سے پیروی کی گئی ہے۔ اے جی نے کہا کہ تقرریاں کنونشن کی بنیاد پر کی جاتی ہیں اور سی ای سی کی تقرری کا کوئی الگ طریقہ نہیں ہے۔
جسٹس رستوگی نے کہا کہ الیکشن کمشنر کی تقرری میں شفاف طریقہ کار ہونا چاہئے اور یہ طریقہ کار ایسا ہونا چاہئے کہ لوگ اس پر سوال نہ اٹھا سکیں۔ انہوں نے کہا کہ آپ نے دو دن پہلے ہی کسی کو الیکشن کمیشن کے عہدے پر تعینات کیا ہے،ہمیں ان کی تقرری میں اختیار کیا گیا طریقہ کار بتائیں۔
اس موقع پر اے جی نے جواب دیا، تو کیا ہم کہہ رہے ہیں کہ وزراء کی کونسل پر اعتماد نہیں ہے؟ اس پر جسٹس رستوگی نے کہا، “نہیں، ہم اپنے اطمینان کے لئے کہہ رہے ہیں کہ دو دن پہلے مقرر کردہ EC کے بارے میں کیا طریقہ کار اختیار کیاگیا ، ہمیں دکھائیں۔” اے جی نے جواب دیا کہ وہ پہلے ہی بتا چکے ہیں کہ کنونشن کی پیروی کیسے کی جاتی ہے اور تقرریاں سنیارٹی کی بنیاد پر کی جاتی ہیں۔
اے جی نے کہا، یہ انتخاب کا نظام نہیں ہے، بلکہ ایک عمل ہے۔ بنچ نے کہا کہ وہ سمجھتی ہے کہ سی ای سی کی تقرری ای سی میں سے ہوتی ہے، لیکن پھر اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے اور مرکز صرف سرکاری ملازمین تک کیوں محدود ہے؟ اے جی نے کہا کہ یہ ایک بالکل مختلف بحث ہے اور کیا ہم درخواست دہندگان کو قومی پول میں لا سکتے ہیں یہ ایک بڑی بحث ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ سسٹم میں ان بلٹ گارنٹی بھی موجود ہے، جب بھی صدر اس تجویز سے مطمئن نہیں ہوں گے تو وہ ایکشن لے سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ سپریم کورٹ سی ای سی کی تقرری کے لئے کالجیم جیسا نظام لانے کی درخواستوں کی سماعت کر رہی ہے۔ گزشتہ ہفتے مرکز نے سی ای سی اور الیکشن کمیشن کے انتخاب کے لئے کالجیم جیسا نظام بنانے کے مطالبے کی مخالفت کی تھی۔
عدالت عظمیٰ نے اکتوبر 2018 میں سی ای سی اور الیکشن کمیشن کے انتخاب کے لئے کالجیم جیسا نظام طلب کرنے والی مفاد عامہ کی عرضی کو پانچ ججوں کی آئینی بنچ کو بھیج دیا۔