ونی مہاجن، (سکریٹری، پینے کے پانی اورصفائی ستھرائی کی وزارت، حکومت ہند)
”This article/write-up has been edited and sent by the Press Information Bureau(PIB), Government of India and reprinted on its request.“
یہ مضمون پریس انفارمیشن بیورو(پی آئی بی)، حکومتِ ہند کے ذریعہ ایڈیٹیڈ/ترمیم شدہ اورارسال کردہ ہے، جوان کی گزارش پرشائع کی گئی ہے۔
اس وقت جب کہ ہم ’’تبدیلی کو مہمیزکرنے‘‘ کے مرکزی موضوع کے ساتھ بیت الخلا کا عالمی دن منا رہے ہیں، ہماری اجتماعی توجہ دنیا بھر میں صفائی ستھرائی کے لیے جاری جدوجہد کی طرف مبذول ہوتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 350 کروڑ افراد اب بھی محفوظ بیت الخلا تک رسائی سے محروم ہیں اور 41.9 کروڑ افراد کھلے میں رفع حاجت کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ نہ صرف انسانی وقاراورحفاظت کے لیے سنگین خطرہ ہے، بلکہ بیماریوں کے پھیلاؤ میں بھی کردار ادا کرتا ہے، جس سے ہرروز پانچ سال سے کم عمرکے 1000 بچے ہلاک ہوجاتے ہیں۔ پائیدارترقیاتی ہدف 6 (ایس ڈی جی 6) ، یعنی 2030 تک سبھی کے لیے محفوظ بیت الخلا اور پانی کو یقینی بنانا ، کے حصول میں محض سات سال باقی ہیں۔ بھارت کا سوچھ بھارت مشن (ایس بی ایم) محفوظ صفائی ستھرائی کے لیے عالمی کاوشوں میں ایک اہم طاقت کے طور پر ابھر رہا ہے۔
صفائی ستھرائی کی عالمی ہنگامی صورت حال کے پس منظر میں بھارت کا سوچھ بھارت مشن اس بات کی روشن نظیر ہے کہ عزم، اسٹریٹجک منصوبہ بندی اور ملک گیر تعاون سے کیا کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ سال 2014 میں شروع کی گئی اس پرجوش پہل نے بھارت کے صفائی ستھرائی کے منظر نامے کو بدل کر رکھ دیا اور یہ نہ صرف ایک قومی پروگرام بن گیا ہے، بلکہ وسیع تر عالمی تناظر میں بھی امید کی کرن ثابت ہوا ہے۔ سوچھ بھارت مشن (2014-2019)کےابتدائی مرحلے نے صفائی ستھرائی کے بارے میں بھارت کے اپروچ میں ایک اہم تبدیلی کا غماز ہے۔ پانچ سال کی مدت میں 10 کروڑ سے زیادہ گھریلو بیت الخلا کی تعمیر نے صفائی ستھرائی کا کوریج 2014 میں صرف 39 فیصد سے بڑھا کر 2019 میں 100 فیصد کر دیا۔ مہاتما گاندھی کو ان کی 150 ویں جینتی پر خراج عقیدت پیش کرنے کے مقصد سے حاصل ہونے والے اس کارنامے نے یہ ثابت کردیا کہ اجتماعی کوششیں انقلاب برپا کر سکتی ہیں۔ یہ مشن انفرادی گھرانوں تک محدود نہیں رہا۔ اس نے مختلف شعبوں کو بھی متاثر کیا، دیگر وزارتوں نے شاہراہوں، پٹرول پمپوں،ریلوے،اسکولوں،اسپتالوں اور دیگر علاقوں میں صفائی ستھرائی کے لیے 50,000 کروڑ روپے سے زیادہ مختص کیے۔
اعداد و شمار کے سنگ میل سے آگے، ایس بی ایم نے زندگیاں بچائیں، لوگوں کو معاشی طور پر بااختیاربنایا، اور ماحولیات کے تحفظ میں مدد کی۔ عالمی ادارہ ٔصحت (ڈبلیو ایچ او) نے 2018 میں تصدیق کی کہ ایس بی ایم کی وجہ سے 2014 کے اساسی سال کے مقابلے میں 2019 میں اسہال سے ہونے والی 3 لاکھ جانیں بچ گئیں۔ مزید برآں، 2017 میں یونیسیف کی تحقیق نے ایس بی ایم کے اثرات کے ایک اور پہلو کا انکشاف کیا : معاشی تفویض اختیارات۔ او ڈی ایف گاؤوں میں رہنے والے خاندانوں کو اوسطاً 50,000 روپے کی سالانہ بچت ہوئی، جو ان کے صحت کے اخراجات میں کمی کا براہ راست نتیجہ ہے، جس سے ذرائع معاش پر صفائی ستھرائی کے اقدامات کے دور رس اثرات ظاہر ہوتے ہیں۔ یونیسیف کی جانب سے 2019 میں کیے گئے ایک جامع ماحولیاتی جائزے میں ماحولیات پر ایس بی ایم کے اثرات کو اجاگر کیا گیا ۔ او ڈی ایف گاؤوں میں زیر زمین پانی کی آلودگی کے امکانات 12.70 گنا کم ہوئے۔
تاہم، ایس بی ایم کے سب سے دور رس اثرات میں سے ایک یہ ہے کہ کس طرح خواتین کی روزمرہ زندگی میں ایک معیاری تبدیلی آئی ہے جو اب اپنے تحفظ و سلامتی سے سمجھوتا کیے بغیر اپنے ارد گرد آزادی سے گھوم سکتی ہیں۔ یہ ایک بنیادی حق ہے جس کا استحقاق ہر فرد کو ہے۔ اس کام یابی کا اعتراف یونیسیف نے 2017 میں بھی کیا تھا، جب اس نے بتایا تھا کہ جن علاقوں میں ایس بی ایم کے ذریعے بیت الخلا متعارف کرائے گئے ، وہاں 96 فیصد خواتین نے گھر پر تحفظ کے احساس کی اطلاع دی تھی۔
پہلے مرحلے کی کامیابی کے ساتھ، بھارت 2020 میں ایس بی ایم – جی مرحلہ دوم میں چلا گیا، جس نے محض تعمیرات سے آگے بڑھ کر کھلے میں رفع حاجت سے پاک (او ڈی ایف) درجہ برقرار رکھنے اور ٹھوس اور مائع فضلے کے انتظام پر توجہ مرکوز کی۔ اس مشن کا مقصد اب مکمل صفائی ستھرائی ہے، نیز گاؤں کو او ڈی ایف سے او ڈی ایف پلس میں تبدیل کرنا، 2030 تک سب کے لیے محفوظ بیت الخلا اور پانی فراہم کرنے کے عالمی ایجنڈے کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرنا ہے۔
تمام شعبوں میں صفائی ستھرائی کو مرکزی دھارے میں لانے کو یقینی بنانے کے لیے بھارت سرکار کی مسلسل مدد اس مشن کے لیے اس کی مالی اور اسٹریٹجک عزم بستگی سے ظاہر ہوتی ہے۔ ایس بی ایم-جی مرحلہ دوم کے تحت بھارت سرکار نے 1.40 لاکھ کروڑ روپے کی خطیر رقم مختص کی ہے، جس کا مقصد آنے والے برسوں میں بھی اس پروگرام کو تعاون دینا ہے، جس میں سیاسی وژن، جامع حکمت عملی اور صفائی ستھرائی کے ارتقا پذیرچیلنجوں سے نمٹنے کا عوامی عزم ظاہرکیا گیا ہے۔ ایس بی ایم نے مرکزی وزارتوں، ریاستی، مقامی حکومتوں اور ترقیاتی شراکت داروں کے درمیان کئی اسٹریٹجک شراکت داریاں بھی قائم کی ہیں۔ اس میں سب سے قابل ذکر پہل رورل واش پارٹنرز فورم کا قیام ہے۔ 200 سے زائد ترقیاتی شراکت دار، اقوام متحدہ کی ایجنسیاں، کارپوریٹ ادارے، سول سوسائٹی کی تنظیمیں اور شعبہ جاتی شراکت دار قومی، ریاستی اور میدانی سطح پر کمیونٹی کے ساتھ تعاون اور مشغولیت کو آسان بنانے کے لیے حکومت کی کوششوں میں مدد کرنے کے لیے یکجا ہوئے ہیں۔
عالمی برادری 2030 تک ایس ڈی جی 6 کے حصول کے عزم میں متحد ہے، یہ واضح ہے کہ اس مقصد کوحاصل کرنے کے لیے غیر معمولی پیمانے پر مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ بھارت کی نظیرایک محرک کا کام کرتی ہے، اس سے ظاہرہوتا ہے کہ کس طرح ایک قوم اپنے وسائل کویکجا کرسکتی ہے، اپنے شہریوں کو مشغول کر سکتی ہے، اور ہم سب کو متاثر کرنے والے بحران سے نمٹنے کے لیے مؤثر پالیسیوں کو نافذ کر سکتی ہے۔ ایس بی ایم-جی مرحلہ دوم کی کام یابیاں، جس میں ہمارے 80 فیصد سے زیادہ گاؤوں نے خود کو او ڈی ایف پلس قرار دیا ہے، عالمی صفائی ستھرائی کے اہداف کے تئیں بھارت کے عزم کی آئینہ دار ہیں۔ ٹھوس اورمائع فضلے کے انتظام پرمشن کا زوردَوری معیشت اورفضلے کے پائیدارانتظام کے اصولوں کے ساتھ ہم آہنگ رکھتا ہے۔
بیت الخلا کا عالمی دن مناتے ہوئے ہمیں اس کردارکو تسلیم کرنا ہوگا جوسوچھ بھارت جیسے کام یاب قومی مشن عالمی کام یابی کا خاکہ فراہم کرنے میں ادا کرتے ہیں۔ بھارت میں سیکھے گئے اسباق، حکمت عملیوں کے نفاذ اور چیلنجوں پرقابو پانے کی یہ حکایت صفائی ستھرائی کے بحران سے نبردآزما دیگر ممالک کے لیے محرک بن سکتی ہے۔ سرعت ہمارے مشن کی امتیازی خصوصیت ہے، اور ہمیں کام یاب ماڈلوں سے سیکھنا چاہیے اورعالمی پیمانے پرتعاون کرنا چاہیے۔ بھارت کا سوچھ بھارت مشن اپنی قابل ذکر کام یابیوں اورجاری عزم کے ساتھ اس بات کا ثبوت ہے کہ جب قومیں اپنے شہریوں کی صحت، وقاراوربہبود کو ترجیح دیتی ہیں تو کیا کچھ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ آئیے 2030 سے قبل کے ان سات برسوں میں ایس بی ایم جیسی پہل کی کام یابیوں سے فائدہ اٹھائیں تاکہ تبدیلی کو مہمیز کیا جاسکے، عالمی تعاون کو بڑھایا جاسکے اور اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ محفوظ بیت الخلا اور پانی ہرفرد کے لیے حقیقت بن جائیں اور کوئی بھی پیچھے نہ رہنے پائے۔
عمل کا وقت یہی ہے اورمل کر ہم ایک ایسی دنیا کی تعمیرکرسکتے ہیں جہاں صفائی ستھرائی ایک بنیادی استحقاق ہے، نہ کہ کوئی دورازکارمقصد۔ آئیے ہم سب مل کرتبدیلی میں تیزی لائیں اورایک ایسے مستقبل کی راہ ہموارکریں جہاں محفوظ بیت الخلا اور صاف پانی سب کے لیے قابل رسائی ہوں۔