Bharat Express

Supreme Court on Hate Speech Case: نفرت آمیز تقاریر پر سپریم کورٹ کے سخت موقف کے بعد کیا اس معاملے میں آئے گی کمی؟ ریاستی حکومتیں کریں گی اقدامات؟

Hate Speech Case: اس سے پہلے سپریم کورٹ نے نفرت آمیز تقاریر سے متعلق صرف دہلی، اتراکھنڈ اور یوپی حکومت کو یہ حکم دیا تھا۔

تبدیلی مذہب کی عرضی دیکھ کر سپریم کورٹ ہوا ناراض، کہا - ہر کوئی لے کر آجاتا ہے اس طرح کا پی آئی ایل

Hate Speech Case: سپریم کورٹ نے گزشتہ روزجمعہ (28 اپریل) کو نفرت آمیزتقاریر(ہیٹ اسپیچ) معاملے میں سبھی ریاستوں اورمرکزکے زیرانتظام ریاستوں کوازخود نوٹس لے کرکارروائی کرنے کا حکم دیا ہے۔ وہیں اسے لے کرعدالت کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایسے معاملوں میں کارروائی کرتے وقت ہیٹ اسپیچ دینے والے کے مذہب کی پرواہ نہیں کرنی چاہئے۔

نفرت آمیز تقاریر نہ کی جائیں

سپریم کورٹ نے سبھی ریاستوں اورمرکزکے زیرانتظام ریاستوں کو یہ یقینی بنانے کا حکم دیا ہے کہ جب بھی کوئی نفرت پھیلانے والی تقریرکی جائے، وہ بغیرکسی شکایت کے ایف آئی آر درج کرنے کے لئے ازخود نوٹس لے کرکارروائی کریں۔ سپریم کورٹ یہ واضح کرتا ہے کہ تقریرکرنے والے اشخاص کے مذہب کی پرواہ کئے بغیرایسی کارروائی کی جائے گی تاکہ ہندوستان کے سیکولرکردارکو برقرار رکھا جا سکے، جیسا کہ تمہید میں کہا گیا ہے۔

گزشتہ سال 21 اکتوبرکو ہوئی سماعت میں جسٹس کے ایم جوسف اوررشی کیش رائے کی بینچ سے عرضی گزارشاہین عبداللہ نے کہا تھا کہ مسلمانوں کے خلاف مسلسل اشتعال انگیزبیان دیئے جا رہے ہیں، اس سے خوف کا ماحول ہے۔ تب بینچ کے رکن جسٹس رشی کیش رائے نے کہا تھا، “کیا ایسی تقاریرصرف ایک طرف سے ہی دیئے جا رہے ہیں؟ کیا مسلم لیڈرنفرت آمیزبیان نہیں دے رہے ہیں؟ آپ نے عرضی میں صرف یکطرفہ بات کیوں کہی ہے؟” اس پرعرضی گزارکے لئے پیش سینئروکیل کپل سبل نے کہا تھا کہ جو بھی نفرت پھیلائے، اس  پرکارروائی ہونی چاہئے۔

پہلے ان ریاستوں کو دیا گیا حکم

واضح رہے کہ اس سے پہلے سپریم کورٹ نے نفرت آمیز تقاریرسے متعلق صرف دہلی، اتراکھنڈ اوریوپی حکومت کو یہ حکم دیا تھا۔ وہیں آج سپریم کورٹ کے ذریعہ یہ حکم سبھی ریاستوں کو دیا گیا ہے۔ وہیں اس معاملے کی سماعت کے دوران جسٹس کے ایم جوسف نے کہا کہ ”یہ ایک سنگین جرم ہے، جو قوم کے تانے بانے کومتاثرکرتا ہے۔ یہ ہماری جمہوریت کے دل اور لوگوں کے وقارکومتاثرکرتا ہے۔” اس کے علاوہ انہوں نے کہا کہ ’’ذات، برادری، مذہب سے بالاترہوکرکسی کو بھی قانون توڑنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔‘‘

  -بھارت ایکسپریس

Also Read