الہ آباد ہائی کورٹ کے جج شیکھر یادو کو سپریم کورٹ کالجیم نے طلب کیا ہے۔رپورٹ کے مطابق، سپریم کورٹ کالجیم کی سربراہی میں سی جے آئی سنجیو کھنہ نے جسٹس شیکھر کمار یادو کے ساتھ میٹنگ کی اور انہیں بتایا کہ انہوں نے وی ایچ پی کے پروگرام میں جو کچھ کہا ہے ، اس سے بچا جا سکتا تھا۔رپورٹ کے مطابق قریب 30 منٹ تک یہ ملاقات جاری رہی،البتہ اس دوران کیا کچھ بڑی باتیں کہی گئیں ،اس کی مکمل تفصیلات سامنے نہیں آسکی ہیں ۔ واضح رہے کہ راجیہ سبھا کے چیئرمین بھی اس معاملے پر نظر رکھے ہوئے ہیں، جہاں اپوزیشن نے جسٹس یادو کا مواخذہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ حزب اختلاف نے جسٹس یادو پر نفرت انگیز تقریر اور فرقہ وارانہ منافرت بھڑکانے کا الزام لگایا ہے۔
ذرائع کے مطابق سپریم کورٹ کالجیم نے انہیں اپنے آئینی عہدے کے وقار کو برقرار رکھنے کا مشورہ دیا اور کہا کہ وہ جب بھی تقریر کریں تو اپنے آئینی مقام اور وقار کو ملحوظ خاطر رکھیں اور اضافی احتیاط کریں۔ یاد رہے کہ سپریم کورٹ کالجیم میں سی جے آئی کے علاوہ جسٹس بی آر گاوائی، جسٹس سوریہ کانت، جسٹس ہریشی کیش رائے اور جسٹس ایس اوک شامل تھے۔ ان سب نے الہ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شیکھر یادو کو بلایا تھا اور جسٹس شیکھر یادو ان کے سامنے پیش ہوئے تھے۔
جسٹس شیکھر یادو نے کیا کہا؟
موصولہ اطلاع کے مطابق شیکھر یادو نے کالجیم کو اپنی تقریر کا مطلب اور اس سیاق و سباق کی وضاحت کی۔ اس کے ساتھ انہوں نے یہ بھی کہا کہ میڈیا نے ان کی تقریر کے صرف کچھ حصے دکھائے تاکہ تنازعہ کھڑا ہو۔بھارت ایکسپریس کے ذرائع کے مطابق کالجیم جسٹس شیکھر یادو کی طرف سے دی گئی وضاحت سے متفق یا مطمئن نظر نہیں آئے۔ ایسے میں ان کی تقریر کے کچھ حصوں پر انہیں سرزنش کی گئی۔ اس دوران ان سے سوالات بھی کیے گئے۔اور عدالت کے اندر اور باہر اپنے طرز عمل کے بارے میں محتاط رہنے کو کہا، اور یہ بھی کہا کہ جج کا ہر بیان دفتر کے وقار کے مطابق ہونا چاہیے تاکہ لوگوں کا اعتماد بحال ہو اورعدلیہ متاثر نہ ہو۔سپریم کورٹ کے اعلیٰ ذرائع کے مطابق جسٹس یادو کو مزید پوچھ گچھ کے لیے بلایا جا سکتا ہے۔
واضح رہے کہ 8دسمبر کو الہ آباد ہائی کورٹ کے احاطے میں وشو ہندو پریشد کی طرف سے منعقد ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس شیکھر یادو نے مسلمانوں کو نشانہ بنایا تھا اور یکساں سول کوڈ کو ہندو بنام مسلم بحث کے طور پر پیش کیا تھا۔جسٹس شیکھر یادو نے کہا تھا کہ آپ کو یہ غلط فہمی ہے کہ اگر کوئی قانون (یو سی سی) لایا جاتا ہے تو یہ آپ کی شریعت، آپ کے اسلام اور آپ کے قرآن کے خلاف ہوگا۔ لیکن میں ایک بات اور کہنا چاہتا ہوں۔ چاہے وہ آپ کا پرسنل لاء ہو، ہمارا ہندو قانون ہو، آپ کا قرآن ہو یا ہماری گیتا، جیسا کہ میں نے کہا کہ ہم نے اپنے طرز عمل میں برائیوں کو دور کیا ہے۔ کوتاہیاں تھیں، ان کا ازالہ کر دیا گیا ہے، اچھوت، ستی پرتھا، لڑکی کا قتل۔ ہم نے ان تمام مسائل کو حل کیا ہے۔ پھر آپ اس قانون کو کیوں ختم نہیں کر رہے کہ جب آپ کی پہلی بیوی آپ کے پاس ہوں تو اس کی مرضی کے بغیر آپ تین بیویاں کیسے رکھ سکتے ہیں، یہ قابل قبول نہیں ہے۔
جسٹس یادو نے مزید کہا کہ ہندومت میں رواداری کے بیج ہیں جو اسلام میں نہیں ہیں۔ ہمیں سکھایا جاتا ہے کہ ایک چیونٹی کو بھی مت مارنا۔ شاید اسی لیے ہم روادار اور لبرل ہیں۔ ہمیں کسی کی تکلیف دیکھ کر تکلیف ہوتی ہے، لیکن آپ (مسلمانوں) کو ایسا نہیں ہوتا، کیوں؟ کیونکہ جب کوئی بچہ ہماری کمیونٹی میں پیدا ہوتا ہے تو اسے بچپن سے ہی بھگوان، وید اور منتر کے بارے میں پڑھایا جاتا ہے۔ اسے عدم تشدد کی تعلیم دی جاتی ہے، لیکن آپ کے یہاں بچپن سے ہی بچوں کے سامنے جانور ذبح کیے جاتے ہیں، تو آپ اس سے روادار اور آزاد خیال ہونے کی امید کیسے رکھتے ہیں؟
بھارت ایکسپریس۔