Opposition delegation castigates both Centre and State : اپوزیشن کے اتحاد نے تشدد سے متاثرہ ریاست منی پورکا دورہ کیا ہے۔ اپوزیشن اتحاد کا وفد اب دہلی واپس آگیا ہے۔انڈیا اتحاد کے 21 ارکان پارلیمنٹ تشدد سے متاثرہ ریاستوں میں گئے تھے۔ منی پور کے دورے سے واپس آنے سے پہلے I.N.D.I.A کے وفد نے منی پور کی گورنر انوسویا یوکی کو ایک میمورنڈم پیش کیا۔ وہاں سے واپس آنے کے بعد کانگریس ایم پی گورو گوگوئی نے کہا کہ لوگوں نے وہاں (منی پور) ہمارا استقبال کیا۔ این ڈی اے اتحاد اور وزیر اعظم مودی کو بھی منی پور کا دورہ کرنا چاہئے۔ دوسری طرف منی پور سے واپسی کے بعد آر جے ڈی کے رکن پارلیمنٹ منوج جھا نے کہا،’ہم چاہتے ہیں کہ منی پور میں امن بحال ہو۔ ہمارا مطالبہ صرف یہ ہے کہ دونوں برادریاں ہم آہنگی سے رہیں۔ منی پور میں صورتحال خطرناک ہے۔ پارلیمنٹ میں پہلے ہی اس پر بحث ہو چکی ہے کہ ایک آل پارٹی وفد کو بھی منی پور کا دورہ کرنا چاہئے۔
The delegation of INDIA met the Governor of Manipur and requested that the government restore peace and rehabilitate affected families at the earliest.
The opposition MPs also submitted a memorandum to the Governor. pic.twitter.com/YLLTKdpYXb
— Congress (@INCIndia) July 30, 2023
‘چین موقع سے فائدہ اٹھا سکتا ہے’
دوسری طرف، کانگریس لیڈر ادھیر رنجن چودھری نے حکومت کو نشانہ بنایا کہ منی پور قومی سلامتی کے لیے تشویشناک ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ چینی فوجی سرحدی ریاست میں بدامنی کا غلط فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ کانگریس لیڈر نے کہا کہ منی پور کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ حکومت صورتحال کو نہیں سمجھ رہی۔ میانمار کے ساتھ صرف 75 کلومیٹر کی سرحد پر باڑ لگی ہوئی ہے، چین اس سے تھوڑا ہی پیچھے ہے۔ یہ تشویشناک صورتحال ہے، میں سیاست نہیں کر رہا، یہ اب ملک کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
‘حکومتوں نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں’
منی پور سے واپس آنے کے بعد کانگریس کے رکن پارلیمنٹ ادھیر رنجن چودھری نے کہا، ‘ریاستی حکومت اور مرکزی حکومت دونوں ہی منی پور کے لیے کوئی بڑا قدم نہیں اٹھا رہی ہیں۔ دہلی اور ملک سے باہر بھی بڑے کام ہو رہے ہیں۔ لوگوں کے گھروں میں خوراک اور ادویات نہیں، بچوں کو سہولیات میسر نہیں۔ پڑھائی کے لیے، کالج کے طلباء کالج نہیں جا سکتے۔ دونوں برادریوں کے درمیان لڑائی ختم کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا جا رہا ہے۔ ریاستی حکومت اور مرکزی حکومت نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔
मणिपुर में राशन और दवाई सब बंद है। छात्रों की पढ़ाई बंद हो चुकी है।
हम सदन में सरकार पर दबाव बनाएंगे। केंद्र व राज्य सरकार की खामियों और जनता की शिकायतों को सदन में रखेंगे।
मणिपुर के हालात बिगड़ते जा रहे हैं। देश की सुरक्षा का खतरा पनप रहा है। इसका जल्द ही समाधान होना चाहिए।… pic.twitter.com/vzeOTCFaaW
— Congress (@INCIndia) July 30, 2023
‘پارلیمنٹ میں بحث کریں گے’
منی پور سے واپسی کے بعد IUML کے رکن پارلیمنٹ ای ٹی محمد بشیر نے کہا، ‘وہاں کی صورتحال واقعی بہت خراب ہے۔ لوگ تکلیف میں ہیں۔ ہم اپنے تمام نتائج پیش کریں گے اور پارلیمنٹ میں اس پر بحث کریں گے۔ ہمارا دورہ سود مند رہا اور ہم زمینی حقیقت کو سمجھنے کے قابل رہے۔ ہم نے گورنر سے ملاقات کی اور انہیں ایک تفصیلی میمورنڈم دیا، ہم نے اپیل کی کہ حالات کو بحال کیا جائے۔
گورنر سے وفد نے کی ملاقات
انڈیا اتحاد کے وفد نے آج گورنر سے ملاقات کی اور ایک میمورنڈم پیش کیا، جس میں ان سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ ریاست میں امن کی بحالی کے لیے موثر اقدامات کریں۔ میمورنڈم میں کہا گیا، ‘آپ سے یہ گزارش ہے کہ مرکزی حکومت کو منی پور میں گزشتہ 89 دنوں سے امن و امان کی مکمل خرابی کے بارے میں مطلع کریں تاکہ انہیں منی پور میں امن کو بحال کرنے کے لیے کام کرے۔
ریلیف کیمپوں کا دورہ کرکے متاثرین سے بات کی
ریلیف کیمپوں میں جا کر متاثرین کا درد سن کر انڈیا اتحاد کے اراکین پارلیمنٹ نے کہا کہ ہم نے کئی علاقوں کا دورہ کیا۔ یہ ہم سب کے لیے ایک مشکل دن رہا ہے۔ کانگریس کے رکن پارلیمنٹ گورو گوگوئی نے کہا کہ ہم چار ریلیف کیمپوں میں گئے اور لوگوں کا درد سنا۔ خواتین یہ بتاتے ہوئے ٹوٹ گئیں کہ ان پر کیسے حملہ کیا گیا۔ گوگوئی نے کہا کہ ہم نئی دہلی واپس جاکراس دورے کے دوران سامنے آنے والی خوفناک کہانیوں کو پارلیمنٹ میں اٹھائیں گے۔ٹی ایم سی ایم پی سشمیتا دیو نے کہا کہ پوری اپوزیشن منی پور کے ساتھ ہے۔ جے ایم ایم کے رکن اسمبلی مہوا ماجی نے کہا کہ وزیر داخلہ امت شاہ نے دعویٰ کیا کہ منی پور میں امن لوٹ آیا ہے، لیکن امن کہاں ہے؟ ریاست ابھی تک جل رہی ہے۔ جب کہ ڈی ایم کے ایم پی کنیموزی نے کہا کہ لوگ حکومت سے خود کو ذلیل محسوس کررہے ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہاں کے لوگ محسوس کرتے ہیں کہ حکومت نے مداخلت نہیں کی اور اگر تشدد جاری رہتا ہے تو انہیں سی ایم این بیرن سنگھ پر کوئی بھروسہ نہیں ہے۔
हम राज्यपाल महोदया से आग्रह करेंगे कि वह मणिपुर की जवाबदेही तय करें। राज्य और केंद्र सरकारें अपनी जिम्मेदारी से भाग रही हैं।
देश के प्रधानमंत्री, रक्षा मंत्री, विदेश मंत्री और महिला एवं बाल विकास मंत्री मणिपुर से क्यों गायब हैं?
जबकि INDIA का डेलिगेशन मणिपुर में है और वह हिंसा… pic.twitter.com/ZQxyE3IBrI
— Congress (@INCIndia) July 30, 2023
متاثرہ خواتین کی درخواست
انڈیا اتحادکے وفد نے ان متاثرہ خواتین کے اہل خانہ سے بھی ملاقات کی، جنہیں 4 مئی کو ہجوم کے ہاتھوں برہنہ کیا گیااور مارا پیٹا گیا تھا۔ متاثرہ خواتین میں سے ایک کی والدہ نے وفد سے درخواست کی کہ وہ اس کے شوہر اور بیٹے کی لاشیں حاصل کرنے میں ان کی مدد کریں جنہیں ہجوم کے ہاتھوں قتل کیا گیا تھا۔ جب ٹی ایم سی ایم پی سشمیتا دیو اور ڈی ایم کے ایم پی کنیموزی نے متاثرہ میں سے ایک کی ماں سے ملاقات کی تو اس نے درخواست کی کہ اسے کم از کم اپنے بیٹے اور شوہر کی لاشیں دیکھنے کی اجازت دی جائے۔ انہوں نے دونوں رہنماؤں سے یہ بھی کہا کہ صورتحال ایسی ہے کہ کوکی اور میتئی کمیونٹی اب ایک ساتھ نہیں رہ سکتے۔
منی پور میں تشدد کب ہوا؟
3 مئی کو آل ٹرائبل اسٹوڈنٹس یونین منی پور (اے ٹی ایس یو ایم) نے ‘قبائلی اتحاد مارچ’ نکالا۔ یہ ریلی چرچند پور کے علاقے توربنگ میں نکالی گئی۔ اس ریلی کے دوران قبائلیوں اور غیر قبائلیوں کے درمیان پرتشدد تصادم ہوا۔ پولیس نے بھیڑ کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کے گولے داغے۔ 3 مئی کی شام تک حالات اتنے بگڑ گئے کہ ریاستی حکومت نے مرکز سے مدد مانگی۔ بعد ازاں وہاں فوج اور نیم فوجی دستوں کی کمپنیاں تعینات کر دی گئیں۔ یہ ریلی میتئی برادری کے اس مطالبے کے خلاف نکالی گئی تھی کہ اسے شیڈول ٹرائب کا درجہ دیا جائے۔ میتئی برادری کافی عرصے سے شیڈول ٹرائب یعنی ایس ٹی کا درجہ دینے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ منی پور تشدد میں اب تک 150 سے زائد لوگوں کی موت ہو چکی ہے۔