Bharat Express

Muslim Manifesto: مسلم انتخابی منشور، زخم پر مرہم اور مستقبل کا سفر

مسلمانوں کے درمیان تبادلہ خیال کا سب سے اہم موضوع یہ ہوگا کہ ان پر ظلم کیا جا رہا ہے۔ ‘ہمارا کاروبار خطرے میں ہے، ہمارے خلاف بھید بھاؤ ہو رہا ہے، ہمارا مستقبل تاریک ہے… ہمارا اسلام خطرے میں ہے۔’

ڈاکٹر شجاعت علی قادری

(چیئرمین، مسلم اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آف انڈیا)

ہندوستان میں مسلمانوں کے لئے شدت کی نیند سے بیدار ہونے کا وقت ہمیشہ رہا ہے۔ حالانکہ یہ کبھی بھی اتنا ضروری نہیں تھا، جتنا آج ہے۔ تصورات اور خوف کے برعکس یہ برادری پھل پھول رہا ہے۔ حالانکہ اس کی رفتاردیگر برادریوں کے مقابلے میں سست رہی ہے اور مسلم دماغ مستقبل سے متعلق غیر یقینی صورتحال سے بھرا ہوا ہے۔ اگر بی جے پی 2024 میں اقتدار میں لوٹی تو کیا ہوگا؟ کیا یہ مسلمانوں کے لئے قیامت کی شروعات ہوگی؟ یہ سوال مسلم علاقوں سے لے کر مسلم دانشوروں تک کو پریشان کر رہا ہے۔

 ان سب چیزوں سے متعلق پریشان مسلمانوں سے پوچھا جائے کہ کیا وہ نارتھ ایسٹ (شمال مشرق) کی تین ریاستوں (تری پورہ، میگھالیہ اور ناگالینڈ) کے جغرافیائی اور آبادی کو جانتے ہیں، جہاں بی جے پی کو حالیہ الیکشن میں بہت فائدہ ملا ہے۔ اس کا قابل اطمینان جواب نہیں ملے گا۔ یہاں کم علمی کی صورتحال اس لئے نہیں ہے کہ عام مسلمان سیاسی طورپرغیرتعلیم یافتہ ہیں بلکہ اس لئے کہ انہیں سیاسی اورمذہبی دونوں طرح کی قیادت کے ذریعہ اس طرح کی صورتحال میں پہنچا دیا گیا ہے۔ بہت ہی کم مواقع پر ہم دیکھتے ہیں کہ مسلم تنظیمیں (وہ ہندوستان میں بڑی آبادی میں ہیں) مسلم نوجوانوں کو تعلیم یافتہ بنانے، حکومت کے ساتھ تعاون کرنے اورزمینی سطح کی سیاست کو سمجھنے کے لئے پروگرام منعقد کرتے ہیں۔ اسی طرح نوجوان مسلمانوں کو انٹرپرینیورشپ اوردیگر کاروباری اسکلس کے بارے میں بیداری پیدا کرنے کے لئے پروگراموں کا فقدان ہے۔ مسلمانوں میں خوف کی جڑ ایسی ہی کم علمی اور گمراہی سے پیدا ہوتی ہے۔ پھر بھی جیسا کہ ایک صوفی کہاوت ہے، وہاں علاج بھی موجود ہے، جہاں زخم پریشان کرتا ہے۔

 براہ کرم مزید شکار نہ ہوں

مسلمانوں کے درمیان تبادلہ خیال کا متعلقہ موضوع یہ ہوگا کہ انہیں پریشان کیا جا رہا ہے۔ ‘ہمارا کاروبار خطرے میں ہیں، ہمارے خلاف بھید بھاؤ ہو رہا ہے، ہمارا مستقبل تاریک ہے… ہمارا اسلام خطرے میں ہے’ اس کی فہرست بہت لمبی ہے۔ عام طور پر ان خیالات کو علامہ محمد اقبال کی شاعری کا مثال دیتے ہوئے آگے بڑھایا جاتا ہے۔ عربی شاعر ابوالعلا المعری پران کی شاعری کے کچھ اشعار اس طرح ہیں۔

تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جُرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات !
(تقدیر پر فیصلے پر بیٹھے جج کا ابدی فرمان ہے۔ یہ کمزوری ایک جرم ہے، جس کی سزاموت ہے)

علامہ اقبال کی شاعری کے اشعار کا مطلب یہ ہے کہ کمزور ہونا یا صرف متاثرین کی طرح محسوس کرنا، چاہے انسان کے لئے ہو یا برادری کے لئے، یہ راستہ موت کی طرف لے جاتا ہے۔ یہ ہندوستانی مسلمانوں کے لئے ایک نصیحت ہے کہ انہیں خود کو مظلوم ماننا بند کرنا ہوگا اور پھر ان لوگوں سے اپنی پریشانیوں اور مسائل کا حل نکالنا ہوگا جو اپنے فائدے کے لئے ان کے ‘وکٹم ہڈ’ کا کاروبار کرتے ہیں۔ وہ ملک کی دوسری سب سے بڑی آبادی ہیں۔ ان کی آواز میں یہ اعتماد جھلکنا چاہئے۔ انہیں پوری لگن اور جوش کے ساتھ جمہوری عمل میں شراکت داری کرنی چاہئے۔

کیا صرف مسلمان ہی مسلمانوں کا لیڈر ہوگا؟

ایک تھنک ٹینک کے سروے کے مطابق، مسلمانوں کی ہندوستان کے 90  اضلاع، 100 لوک سبھا حلقوں اور 720 اسمبلی سیٹوں پر فیصلہ کن موجودگی ہے۔ ریاستی اسمبلیوں میں بھی ان کی تعداد بہت ہے۔ پھر بھی مسلمان خود کو مظلوم محسوس کرتے ہیں اور ان کی شکایتیں مسلسل بنی رہتی ہیں۔ سال 2013 میں یوپی ہاؤس میں 67 رکن اسمبلی تھے، جب مظفرنگرفسادات ہوئے تھے اورمسلمانوں کو قتل عام اور اپنے گھروں سے بے گھر ہونے جیسے حالات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس کے علاوہ، اس وقت کے سب سے عظیم مسلم لیڈراعظم خان میرٹھ- مظفر نگر حلقے کے انچارج وزیرتھے۔ مذہبی سیاسی قیادت کی گرفت میں، مسلم عوام اب بھی 2014 کے لوک سبھا انتخابات اوراس کے بعد کے اسمبلی اور 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں مسلم لیڈروں کے حق میں ہے۔ وجہ آج کا “خوف ہے۔”

ہندوستان کے مسلمانوں کو جو سب سے اہم چیز کی توسیع کرنی ہے، وہ یہ ہے کہ انہیں کسی بھی سیاسی جماعت کے ہندو امیدواروں کو منتخب کرنے میں ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہئے، اگر ایسے امیدوار کی پوزیشن مضبوط ہے۔ حقیقت میں مسلمان ایسا کرتے رہے ہیں اور اس کی کئی مثالیں ہیں، لیکن اس کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہئے اور ایسے اچھے لیڈران کے ساتھ ایک مستقل بات چیت کی جانی چاہئے اورانہیں تقاریب اور مسلم علاقوں میں تعلیمی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی دعوت دی جائے۔

جذباتی مذہبی موضوعات کو اہمیت نہ دیں

اسلام، قرآن اور پیغمبرمحمد صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق غیرتصدیق شدہ اور واضح طور پر اشتعال انگیز سماجی مہم سے متعلق مذہب سے وابستہ موضوعات پر ان کے ردعمل کے طور پر کچھ بھی ہندوستانی مسلمانوں کو دقیانوسی اور اصول پسند رنگوں میں پیش نہیں کرتا ہے۔ جب کچھ شدت پسند یہاں تک کہ کچھ لیڈران برادری کے بارے میں کوئی تبصرہ کرتے ہیں تو برادری کے کچھ لیڈران جن میں سے بیشتر داڑھی رکھنے والے مولانا ہوتے ہیں، ٹی وی پر آن اسکرین نفرت پھیلاتے ہوئے نظرآتے ہیں۔ اکثر وہ ایسی باتیں کہہ دیتے ہیں، جو اس طرح کی بحث کو بڑھا دیتی ہیں اور ملک میں ایک فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا ہوجاتی ہے۔ مسلمانوں کو جذباتی مذہبی موضوعات اورایسے مولاناؤں کو نظرانداز کرنا ہوگا۔

سماجی کام، چیریٹی

کتنے سماجی گروپ یا این جی او مسلمانوں کے ذریعہ چلائے جا رہے ہیں یا جن میں مسلم برادری کی تعداد زیادہ ہے۔ ہندوستانی سماج کے سبھی زمروں میں سماجی کام کر رہے ہیں۔ اسی طرح کتنے مسلم عطیہ جو زکاۃ (لازمی عطیہ) اکٹھا کرتے ہیں، یہ مانتے ہیں کہ غیر مسلم بھی ان کی سخاوت سے مستفید ہو رہے ہیں؟ پھر سے اس کا جواب مایوس کن ہے۔ بہت کم مسلمانوں کو اس پرغور کرنے کی ضرورت ہے۔

تعلیم، تجارت اور مستقبل کی جانب قدم

مسلمانوں نے ایک اہم میدان میں اچھا کام کیا ہے اور وہ ہے تعلیم۔ یقینی طور پر تعلیم کا زور تیزی سے بڑھا ہے اورنوجوان مسلمان مختلف میدانوں میں مسلسل ترقی کر رہے ہیں، چاہے وہ سول سروس، مسلح افواج یا پھر کارپوریٹ کی دنیا ہو۔ خواتین سمیت کچھ مسلمانوں نے کامیاب کاروباری افراد کے طور پر خود کو قائم کیا ہے اور اپنی پہچان بنائی ہے۔ مسلمانوں کو پورے ملک میں بزنس گٹھ جوڑ کرنا چاہئے۔ انہیں مسلم محلوں میں پیشہ وارانہ ورکشاپ منعقد کرنی چاہئے، جہاں برادری کے کامیاب لیڈران کو اپنی خصوصیت اور تجربے شیئر کرنا چاہئے۔ اس سے ملک کے نوجوانوں کو ترغیب ملے گی اور وہ اپنے خوف کو دور کرسکیں گے اور اپنے مستقبل کو ایک ہندو کی طرح روشن ہوتے ہوئے دیکھ سکیں گے۔

  -بھارت ایکسپریس

Also Read