مکتبہ جامعہ کو 11 دنوں کے بعد دوبارہ کھول دیا گیا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ اگراپنے حقوق کے لئے آوازاٹھائی جائے اورنیک نیتی کے ساتھ مفاد سے اوپراٹھ کرکام کیا جائے تو اس میں کامیابی ضرورملتی ہے۔ کچھ ایسا ہی مکتبہ جامعہ لمیٹڈ کے معاملے میں بھی دیکھنے کو ملا، جہاں اردو داں طبقے نے اپنی زبان اورتہذیب کے حفاظت کے لئے آوازبلند کی۔ دراصل، پرانی دہلی کے اردو بازارعلاقے میں واقع مکتبہ جامعہ کو بند کردیا گیا تھا اوراس کے سامنے کباب کاؤنٹر لگنے لگا تھا۔ اردوداں طبقے نے اس خراب صورتحال پرافسوس کا اظہارکرتے ہوئے کوششیں شروع کردیں۔ معروف اورسینئرصحافی معصوم مرادآبادی نے اس سلسلے میں آوازبلند کی اوربے پناہ کوششیں کی۔ آخر کارانہیں گیارہویں دن اس میں کامیابی مل گئی۔
سینئرصحافی معصوم مرادآبادی نے سوشل میڈیا (فیس بک) کے ذریعہ اردو داں طبقے کو اس خبرسے روشناس کراتے ہوئے مکتبہ جامعہ کے کھلنے کی تصویرشیئرکی ہے، جس سے اردو داں طبقے میں خوشی کا ماحول دیکھنے کو مل رہا ہے۔ معصوم مرادآبادی نے لکھا، “آپ حضرات کے مخلصانہ تعاون سے مکتبہ جامعہ کی اردو بازارشاخ دوبارہ کھل گئی ہے۔ گیارہ روزکی اعصاب شکن لڑائی رنگ لائی ہے۔ علی خسرو زیدی صاحب کو بھی واپس بلالیا گیا ہے۔”
اردو والے مایوسی کے دائرے سے باہرنکلیں: معصوم مرادآبادی
سینئرصحافی معصوم مراد آبادی نے کہا کہ سب سے پہلے اردو داں طبقے کو مایوسی کے دائرے سے نکلنا چاہئے۔ اردوزبان اورتہذیب کے خلاف جہاں زیادتی ہو رہی ہے، اس کے خلاف ذاتی مفاد سے اوپراٹھ کر آواز بلند کرنا چاہئے۔ اگرزبان ختم ہوجائے گی، تہذیب ختم ہوجائے گی اوراردوادارے ختم ہوجائیں گے تو پھرہمارے باقی رہنے کا کیا مطلب ہے۔ انہوں نے اردو والوں سے اردو زبان کے تئیں محبت کرنے کی اپیل کرتے ہوئے اسے زندہ رکھنے کے لئے اپنی ذمہ داری نبھانے کی اپیل کی۔
اردو زبان کو زندہ رکھنا اردو والوں کی ذمہ داری: ودود ساجد
سینئرصحافی ودود ساجد نے بھارت ایکسپریس سے ٹیلیفونک بات چیت میں کہا کہ سب سے پہلے ہمیں اردوداں طبقے سے شکایت ہے۔ اردوپڑھنے اورجاننے والے بھی اردوکے اخبارنہیں خریدتے ہیں۔ اگراردو زبان زندہ ہے، تواس میں اردو کے اخبارات کا بہت بڑا رول ہے۔ انہوں نے اردو جاننے والوں سے اپیل کی کہ اردو اخبارات اوراردوکی کتابیں خرید کر پڑھیں، یہ اردو زبان کے تحفظ کے لئے ایک ذریعہ ہے۔ اگراردو والے کتابیں خرید کر پڑھتے تومکتبہ جامعہ کے بند ہونے کی نوبت ہی نہیں آتی۔
علی خسرو زیدی کو کردیا گیا تھا سبکدوش
علی خسرو زیدی، شاہد علی خان کے دورمیں 1978 میں اس تاریخی ادارے سے وابستہ ہوئے تھے۔ انتہائی ایمانداری اور دیانت داری کے ساتھ مکتبہ کی خدمت کرنے کے باوجود ان کی قدر نہیں کی گئی۔ آخری دورمیں انھیں تلخ تجربات سے دوچار ہونا پڑا۔ خسرو زیدی کی حیثیت ہندوستان میں اردو اورفارسی کتابوں کے انسائیکلوپیڈیا کی ہے۔ انھیں دونوں زبانوں پرعبور حاصل ہے۔ ان کی یادداشت میں اردو اور فارسی ادب کی جتنی کتابوں کے ٹائٹل محفوظ ہیں شاید ہی کسی اور کی یادداشت میں محفوظ ہوں۔
کیا ہے پورا معاملہ
قابل ذکر ہے کہ گزشتہ 30 اگست کو ہی مکتبہ جامعہ کو بند کردیا گیا تھا۔ ساتھ ہی مکتبہ کے بزرگ انچارج علی خسرو زیدی کو بھی ان کی نوکری سے ہٹا دیا گیا تھا۔ مکتبہ جامعہ کا قیام سال 1922 میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے بانیان میں سے ایک مرحوم ذاکرحسین کی طرف سے کیا گیا تھا۔ مکتبہ جامعہ سے تقریباً 6,000 سے زیادہ کتابیں شائع کی جاچکی ہیں۔ مکتبہ کی شائع شدہ تصانیف میں منشی پریم چند، گاندھی جی، پنڈت جواہرلال نہرو، مولانا ابوالکلام آزاد، ذاکر حسین وغیرہ پر مبنی کتابیں شامل ہیں۔